وَلَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِينَ
اور ہمارے بندے جو رسول ہیں ان کے حق میں پہلے ہی حکم صادر ہوچکا ہے
1۔ وَ لَقَدْ سَبَقَتْ كَلِمَتُنَا ....: پچھلی آیت میں کفار کو ان کے انکار کا نتیجہ بہت جلدی دیکھ لینے کی دھمکی دی تھی، اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حوصلہ اور تسلی دینے کے لیے فرمایا کہ ہمارے ان بندوں کے لیے، جنھیں ہم اپنا رسول بنا کر بھیجتے ہیں، ہماری یہ بات پہلے طے ہو چکی ہے کہ انھی کی مدد کی جائے گی اور صرف انھی کی نہیں بلکہ ان کے اور ان کے پیروکاروں کی صورت میں ہمارا جو بھی لشکر ہو گا وہی غالب رہیں گے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے : ﴿كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِيْ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ ﴾ [ المجادلۃ : ۲۱ ] ’’اللہ نے لکھ دیا ہے کہ ضرور بالضرور میں غالب رہوں گا اور میرے رسول، یقیناً اللہ بڑی قوت والا، سب پر غالب ہے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ﴾ [ المؤمن : ۵۱ ] ’’بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ 2۔ اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَ : اس آیت میں صرف اللہ کے رسولوں کے منصور ہونے کی تاکید کئی طرح سے فرمائی ہے، پہلے ضمیر ’’هُمْ‘‘ کی تاکید دوبارہ ’’هُمْ‘‘ لا کر فرمائی، پھر اس پر ’’لام‘‘ کے ساتھ مزید تاکید فرمائی، پھر خبر پر الف لام لا کر ’’ الْمَنْصُوْرُوْنَ ‘‘ فرمایا، اس سے بھی کلام میں حصر پیدا ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ کہ ہر حال میں انھی کی نصرت ہو گی، ان کے مقابلے میں دوسروں کی نہیں اور ہر حال میں رسول اور ان کے پیروکار ہی غالب رہیں گے۔ 3۔ یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض اوقات انبیاء اور اہل ایمان پر کفار بھی غالب آ جاتے ہیں، جیسا کہ صحیح بخاری میں ابوسفیان سے ہرقل کا سوال مذکور ہے کہ نبوت کا دعویٰ کرنے والے اس آدمی سے کبھی تمھاری جنگ بھی ہوئی ہے، اگر ہوئی ہے تو اس کا نتیجہ کیا رہا؟ تو اس نے جواب دیا : (( كَانَتْ دُوَلاً وَ سِجَالاً، يُدَالُ عَلَيْنَا الْمَرَّةَ وَنُدَالُ عَلَيْهِ الْأُخْرٰی))’’جنگ باریوں کی صورت میں رہی، کبھی وہ ہم پر غالب رہا اور کبھی ہم اس پر غالب رہے۔‘‘ اس سوال کا بہترین جواب تو وہ ہے جو ہرقل نے تمام سوالوں کا جواب سننے کے بعد اپنے تبصرے میں دیا، اس نے کہا : (( وَ سَأَلْتُكَ هَلْ قَاتَلْتُمُوْهُ وَ قَاتَلَكُمْ فَزَعَمْتَ أَنْ قَدْ فَعَلَ، وَ أَنَّ حَرْبَكُمْ وَ حَرْبَهُ تَكُوْنُ دُوَلاً، وَ يُدَالُ عَلَيْكُمُ الْمَرَّةَ وَ تُدَالُوْنَ عَلَيْهِ الْأُخْرٰی، وَكَذٰلِكَ الرُّسُلُ تُبْتَلٰی، وَ تَكُوْنُ لَهَا الْعَاقِبَةُ )) [بخاري، الجہاد والسیر، باب دعاء النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الإسلام والنبوۃ....: ۲۹۴۱، ۴۵۵۳، عن ابن عباس رضی اللہ عنھما ] ’’اور میں نے تم سے پوچھا کہ کیا تم نے اس سے اور اس نے تم سے جنگ کی ہے، تو تم نے بتایا کہ ہاں کی ہے اور تمھاری اور اس کی لڑائی باریوں کی صورت میں رہی، کسی بار وہ تم پر غالب آ تا رہا اور کسی دوسری بار تم غالب آتے رہے اور رسولوں کی اسی طرح آزمائش کی جاتی ہے اور آخری نتیجہ انھی کے حق میں ہوتا ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ نصرت و غلبہ دنیا میں بعض اوقات دلیل اور حجت کے لحاظ سے ہوتا ہے، بعض اوقات فتح اور حکومت ملنے کے ساتھ اور کبھی اپنے موقف پر ثابت اور قائم رہنے کے ساتھ۔ چنانچہ اگر مومن بعض اوقات اپنے دنیوی حالات کی کمزوری کی وجہ سے مغلوب ہو جائے تب بھی دلیل میں اور اپنے ایمان پر ثابت رہنے کی وجہ سے غالب وہی ہے اور آخری نتیجہ اسی کے حق میں ہو گا، جیسا کہ ہرقل نے کہا۔ وہ شہید بھی ہو جائے تو ہمیشہ نعمت کی زندگی کے حصول میں کامیاب ہو گیا اور یقیناً ایک وقت آنے والا ہے جب اہل ایمان کی کفار پر برتری سامنے آ جائے گی، فرمایا : ﴿ فَالْيَوْمَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنَ الْكُفَّارِ يَضْحَكُوْنَ (34) عَلَى الْاَرَآىِٕكِ يَنْظُرُوْنَ (35) هَلْ ثُوِّبَ الْكُفَّارُ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ﴾ [ المطففین : ۳۴ تا ۳۶ ] ’’ سو آج وہ لوگ جو ایمان لائے، کافروں پر ہنس رہے ہیں۔ تختوں پر (بیٹھے) نظارہ کر رہے ہیں۔ کیا کافروں کو اس کا بدلا دیا گیا جو وہ کیا کرتے تھے؟‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے بھی دنیا اور آخرت دونوں کا ذکر فرمایا ہے : ﴿ اِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَ يَوْمَ يَقُوْمُ الْاَشْهَادُ ﴾ [ المؤمن : ۵۱ ] ’’ بے شک ہم اپنے رسولوں کی اور ان لوگوں کی جو ایمان لائے ضرور مدد کرتے ہیں دنیا کی زندگی میں اور اس دن بھی جب گواہ کھڑے ہوں گے۔‘‘ رہا دنیا میں مسلمانوں کا بعض اوقات شکست سے دو چار ہونا، تو جیسا کہ ہرقل نے کہا، یہ اللہ تعالیٰ کی ابتلا اور آزمائش کی حکمت کی وجہ سے ہے۔ اگر دنیا میں ہمیشہ مسلمان ہی فتح یاب ہوں تو امتحان کا معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (124)، آل عمران (۱۴۲) اور سورۂ توبہ (۱۶)۔