أَذَٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا أَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّومِ
(بتاؤ) ایسی مہمانی [٣٦] اچھی ہے یا تھوہر کے درخت [٣٧] کی؟
اَذٰلِكَ خَيْرٌ نُّزُلًا اَمْ شَجَرَةُ الزَّقُّوْمِ: ’’نُزُلًا‘‘ کھانے پینے کی چیزیں اور آرام کی جگہ جو مہمان کے آنے کے وقت کے لیے تیار کی جائیں۔ ’’الزَّقُّوْمِ‘‘اسی سے ’’تَزَقُّمٌ‘‘ہے، جس کا معنی کسی ناگوار چیز کو نہایت مشکل سے نگلنا ہے۔ اس درخت کا دنیا میں وجود نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے آگ میں پیدا فرمائے گا۔ صرف لفظی مشابہت کی حد تک ایک زہریلا پودا ہے جو ’’زقوم‘‘ کہلاتا ہے، جس کا دودھ جسم کو لگ جائے تو جسم سوج جاتا ہے اور آدمی مر جاتا ہے۔ صحرا کے قریب کی خشک زمینوں میں پایا جاتا ہے۔ (الوسیط) اہل جنت کے لیے ’’ رِزْقٌ مَّعْلُوْمٌ (41) فَوَاكِهُ وَ هُمْ مُّكْرَمُوْنَ (42) فِيْ جَنّٰتِ النَّعِيْمِ ‘‘ کی مہمانی کے ذکر کے بعد اہل جہنم کی مہمانی کا ذکر فرمایا۔ اگرچہ بہتری میں دونوں کا کوئی مقابلہ نہیں، مگر کفار اپنے اعمال کو مسلمانوں کے اعمال سے بہتر سمجھتے تھے، اس لیے ان کا نتیجہ ذکر کر کے فرمایا کہ بتاؤ، دونوں میں سے بہتر کیا ہے؟ علاوہ ازیں اس میں کفار پر طنز بھی ہے۔