أَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِينَ
(پھر وہ خوشی سے اپنے دل میں کہے گا) کیا اب تو ہمیں موت نہیں آئے گی؟
اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ ....: ان آیات کی دو تفسیریں ہیں، ایک یہ ہے کہ وہ مومن یہ بات اپنے اس کافر دوست کو کہے گا جو قیامت کا منکر تھا اور وہ دنیا میں کہا کرتا تھا : ﴿اِنْ هِيَ اِلَّا مَوْتَتُنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُنْشَرِيْنَ ﴾ [ الدخان : ۳۵ ] ’’کہ ہماری اس پہلی موت کے سوا کوئی (موت) نہیں اور نہ ہم کبھی دوبارہ اٹھائے جانے والے ہیں۔‘‘ مومن اسے مخاطب کر کے کہے گا، اب دیکھ لو! کیا تمھاری وہ بات درست نکلی یا غلط کہ : ﴿ اَفَمَا نَحْنُ بِمَيِّتِيْنَ (58) اِلَّا مَوْتَتَنَا الْاُوْلٰى وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذَّبِيْنَ﴾ ’’تو کیا ہم کبھی مرنے والے نہیں ہیں، مگر ہماری پہلی موت اور نہ ہم کبھی عذاب دیے جانے والے ہیں۔‘‘ یعنی اب آگ کے وسط میں گرنے پر تمھیں ثابت ہو گیا کہ تمھاری بات غلط تھی ؟ دوسری تفسیر یہ ہے کہ اس مومن کا یہ خطاب اپنے دنیا کے کافر ساتھی کے ساتھ اس سے پہلی آیت ’’ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِيْنَ ‘‘ پر ختم ہو گیا، اس کے بعد وہ مومن جنت میں عطا کردہ نعمتوں کو دیکھ کر اور یہ جان کر کہ اب ہمیشہ جنت میں رہنا ہے، اب نہ موت آئے گی اور نہ یہاں سے نکالے جائیں گے، خوشی اور تعجب کے ساتھ اپنے جنتی ساتھیوں سے کہے گا کہ کیا واقعی ایسا ہے کہ پہلی موت کے بعد جو آ چکی، اب ہم کبھی مرنے والے نہیں، نہ ہی ہمیں کبھی عذاب ہو گا، بلکہ ہم ہمیشہ زندہ رہیں گے اور جنت ہی میں رہیں گے؟ اگرچہ اکثر مفسرین نے دوسری تفسیر کی ہے، مگر پہلی تفسیر زیادہ ظاہر ہے۔