سورة الصافات - آیت 36
وَيَقُولُونَ أَئِنَّا لَتَارِكُو آلِهَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُونٍ
ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب
اور کہتے تھے : ’’کیا ہم ایک دیوانہ شاعر [١٩] کی خاطر اپنے معبودوں کو چھوڑ سکتے ہیں؟‘‘
تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد
وَ يَقُوْلُوْنَ اَىِٕنَّا لَتَارِكُوْا اٰلِهَتِنَا ....: یعنی وہ کلمہ توحید کی دعوت کے جواب میں کہتے تھے کہ کیا ہم اپنے معبودوں کو، جن کی عبادت ہم اور ہمارے آباء کرتے چلے آئے ہیں، ایک دیوانے شاعر کے کہنے پر چھوڑ دیں؟ اس سے ان کی مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھے۔ ان ظالموں نے حق سے انکار ہی کو کافی نہیں سمجھا، بلکہ سارے جہان سے زیادہ علم و عقل والے شخص کو دیوانہ اور شاعر قرار دیا۔ حالانکہ وہ خوب جانتے تھے کہ آپ کا شعر اور شعراء سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی آپ دیوانے تھے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیت میں ان کا جواب دیا۔