الْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلَىٰ أَفْوَاهِهِمْ وَتُكَلِّمُنَا أَيْدِيهِمْ وَتَشْهَدُ أَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ
آج ہم ان کے منہ بند [٥٨] کردیں گے اور ان کے ہاتھ کلام کریں گے اور پاؤں گواہی دیں گے جو کچھ وہ کیا کرتے تھے
1۔ اَلْيَوْمَ نَخْتِمُ عَلٰى اَفْوَاهِهِمْ ....: مونہوں پر مہر لگانے کی وجہ یہ ہو گی کہ بعض مجرم قیامت کے دن اپنے جرم کا اقرار کرنے سے انکار کر دیں گے اور کہیں گے کہ ہم نے کوئی جرم کیا ہی نہیں، وہ گواہوں کو جھٹلا دیں گے اور نامہ اعمال کو بھی درست نہیں مانیں گے، بلکہ اپنے بے گناہ ہونے کی قسمیں کھائیں گے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ ثُمَّ لَمْ تَكُنْ فِتْنَتُهُمْ اِلَّا اَنْ قَالُوْا وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ﴾ [ الأنعام : ۲۳ ] ’’پھر ان کا فریب اس کے سوا کچھ نہ ہو گا کہ کہیں گے، اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔‘‘ اور قسمیں کھا کر دل میں سمجھیں گے کہ جس طرح دنیا میں جھوٹ چل جاتا تھا، اب بھی چل جائے گا، فرمایا : ﴿ يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللّٰهُ جَمِيْعًا فَيَحْلِفُوْنَ لَهٗ كَمَا يَحْلِفُوْنَ لَكُمْ وَ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ عَلٰى شَيْءٍ اَلَا اِنَّهُمْ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ﴾ [ المجادلۃ : ۱۸ ] ’’جس دن اللہ ان سب کو اٹھائے گا تو وہ اس کے سامنے قسمیں کھائیں گے جس طرح تمھارے سامنے قسمیں کھاتے ہیں اور گمان کریں گے کہ وہ کسی چیز پر (قائم) ہیں، سن لو! یقیناً وہی اصل جھوٹے ہیں۔‘‘ اس وقت ان سے یہ معاملہ ہو گا جس کا اس آیت میں ذکر ہے۔ انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے کہ آپ اچانک ہنس دیے اور فرمایا : ’’جانتے ہو میں کس بات پر ہنسا ہوں؟‘‘ ہم نے کہا : ’’اللہ اور اس کا رسول بہتر جانتے ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مِنْ مُخَاطَبَةِ الْعَبْدِ رَبَّهُ يَقُوْلُ يَا رَبِّ! أَلَمْ تُجِرْنِيْ مِنَ الظُّلْمِ؟ قَالَ يَقُوْلُ بَلٰی، قَالَ فَيَقُوْلُ فَإِنِّيْ لَا أُجِيْزُ عَلٰی نَفْسِيْ إِلَّا شَاهِدًا مِنِّيْ، قَالَ فَيَقُوْلُ كَفٰی بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ شَهِيْدًا وَبِالْكِرَامِ الْكَاتِبِيْنَ شُهُوْدًا قَالَ فَيُخْتَمُ عَلٰی فِيْهِ فَيُقَالُ لِأَرْكَانِهِ انْطِقِيْ قَالَ فَتَنْطِقُ بِأَعْمَالِهِ قَالَ ثُمَّ يُخَلّٰی بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْكَلَامِ قَالَ فَيَقُوْلُ بُعْدًا لَكُنَّ وَسُحْقًا فَعَنْكُنَّ كُنْتُ أُنَاضِلُ )) [مسلم، الزھد والرقائق، باب الدنیا سجن للمؤمن و جنۃ للکافر : ۲۹۶۹ ] ’’میں بندے کی اپنے رب سے گفتگو پر ہنسا ہوں (جو وہ قیامت کے دن کرے گا)، وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! کیا تو مجھے ظلم سے پناہ نہیں دے چکا؟‘‘ وہ فرمائے گا: ’’کیوں نہیں؟‘‘ کہے گا : ’’میں اپنے سوا کسی گواہ کی گواہی اپنے خلاف منظور نہیں کروں گا (میرا بدن میرا اپنا ہے باقی سب میرے دشمن ہیں)۔‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’آج تیری ذات ہی تیرے خلاف بطور گواہ کافی ہے اور کراماً کاتبین گواہ کافی ہیں۔‘‘ چنانچہ اس کے منہ پر مہر لگا دی جائے گی اور اس کے جسم کے اعضا سے کہا جائے گا : ’’بولو!‘‘ تو وہ اس کے سارے اعمال بول کر بتائیں گے، پھر اسے بولنے کی اجازت دی جائے گی تو وہ اپنے اعضا سے کہے گا : ’’تمھارا ستیاناس ہو اور تم (مجھ سے) دور ہو جاؤ، میں تو تمھارا ہی دفاع کر رہا تھا۔‘‘ 2۔ اس آیت میں ہاتھوں اور پاؤں کے بولنے اور شہادت دینے کا ذکر ہے، جبکہ دوسرے مقامات پر جسم کے دوسرے اعضا کے بولنے کا بھی ذکر ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ حَتّٰى اِذَا مَا جَآءُوْهَا شَهِدَ عَلَيْهِمْ سَمْعُهُمْ وَ اَبْصَارُهُمْ وَ جُلُوْدُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ ﴾ [ حٰمٓ السجدۃ : ۲۰ ] ’’یہاں تک کہ جوں ہی اس (آگ) کے پاس پہنچیں گے ان کے کان اور ان کی آنکھیں اور ان کے چمڑے ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ اَلْسِنَتُهُمْ وَ اَيْدِيْهِمْ وَ اَرْجُلُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ [ النور : ۲۴ ] ’’جس دن ان کی زبانیں اور ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں ان کے خلاف اس کی شہادت دیں گے جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اس آیت پر ایک سوال ہے کہ مونہوں پر مہر کے باوجود زبانیں کیسے شہادت دیں گی؟ جواب اس کا یہ ہے کہ مہر سے مراد یہ ہے کہ اس کی زبان پر سے اس کا اختیار ختم کر دیا جائے گا اور زبان کو اپنی مرضی سے صحیح بات کہنے کا اختیار ہو گا۔