وَخَلَقْنَا لَهُم مِّن مِّثْلِهِ مَا يَرْكَبُونَ
پھر ان کے لئے ایسی ہی اور چیزیں پیدا [٤١] کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں۔
وَ خَلَقْنَا لَهُمْ مِّنْ مِّثْلِهٖ مَا يَرْكَبُوْنَ : اس سے معلوم ہوا کہ اس سے پہلے انسان کو کشتی بنانے کا علم نہ تھا۔ نوح علیہ السلام کی بنائی ہوئی کشتی کے ذریعے سے طوفان سے بچ نکلنے والوں نے بحری سفر کے لیے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کر دیا جو عام کشتیوں سے باد بانی جہازوں تک پہنچا، پھر انجن والے جہاز ایجاد ہوئے، جن کا سلسلہ ایٹمی ایندھن سے چلنے والے طیارہ بردار جہازوں اور آبدوزوں تک جا پہنچا ہے۔ آگے دیکھیے کیا کچھ ایجاد ہوتا ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد یہ لیا ہے کہ ہم نے ان کے لیے کشتی کی طرح اور سواریاں بھی پیدا کی ہیں، مثلاً اونٹ جو صحرا کا جہاز کہلاتا ہے، اسی طرح موٹر، ریل اور ہوائی جہاز وغیرہ ۔ اگرچہ یہ معنی بھی ہو سکتا ہے، مگر اگلی آیت میں غرق کے ذکر کی وجہ سے ’’ مِنْ مِّثْلِهٖ ‘‘ سے مراد ایسی سواریاں لینا بہتر ہے جو سمندری سفر میں کام آتی ہیں، جن میں ہوائی جہاز بھی شامل ہیں۔ نو ایجاد سواریوں کا پیشگی ذکر سورۂ نحل (۸) میں ملاحظہ فرمائیں۔