وَالْقَمَرَ قَدَّرْنَاهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَالْعُرْجُونِ الْقَدِيمِ
اور چاند کی ہم نے منزلیں مقرر کردی ہیں تاآنکہ وہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح [٣٧] رہ جاتا ہے۔
1۔ وَ الْقَمَرَ قَدَّرْنٰهُ مَنَازِلَ حَتّٰى عَادَ كَالْعُرْجُوْنِ الْقَدِيْمِ: ’’اَلْعُرْجُوْنَ‘‘ بروزن ’’فُعْلُوْنَ‘‘ جمع ’’عَرَاجِيْنُ‘‘ یہ ’’اَلْعِرَاجُ‘‘ سے مشتق ہے، جس کا معنی ٹیڑھا ہونا ہے۔ کھجور کے گچھے کی وہ ٹیڑھی میڑھی ڈنڈیاں جن کے ساتھ کھجوریں لگی ہوتی ہیں۔ 2۔ یہ تیسری دلیل ہے، سورج کی طرح چاند ہمیشہ ایک شکل کا نہیں رہتا، بلکہ روزانہ گھٹتا بڑھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اٹھائیس منزلیں مقرر فرمائیں جن میں وہ نظر آتا ہے۔ پھر ایک دن یا دو دن غائب رہ کر دوبارہ طلوع ہو جاتا ہے۔ پہلی رات وہ پتلی ٹیڑھی سی لکیر کی طرح ہوتا ہے جس کی روشنی بھی مدھم ہوتی ہے، پھر وہ بڑھتا ہوا چودھویں رات کو پورا روشن ہو جاتا ہے، پھر گھٹتا ہوا اٹھائیسویں رات کو دوبارہ اس حالت میں پلٹ جاتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کھجور کی پرانی ٹیڑھی بے رونق ڈنڈی کے ساتھ تشبیہ دی ہے۔ لاکھوں برس سے چاند کا گھٹنا بڑھنا اور طلوع و غروب اسی طرح جاری ہے۔ اتنے زبردست غلبے اور کامل علم والے کے لیے انسان کو دوبارہ زندہ کرنا کیا مشکل ہے۔