لِيُوَفِّيَهُمْ أُجُورَهُمْ وَيَزِيدَهُم مِّن فَضْلِهِ ۚ إِنَّهُ غَفُورٌ شَكُورٌ
تاکہ ایسے لوگوں کو اللہ تعالیٰ ان کا پورا پورا اجر دے اور اپنی مہربانی سے کچھ زیادہ بھی دے۔ بلاشبہ وہ معاف کرنے والا ہے اور قدردان [٣٥] ہے۔
1۔ لِيُوَفِّيَهُمْ اُجُوْرَهُمْ وَ يَزِيْدَهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ:’’ لِيُوَفِّيَهُمْ ‘‘ میں لام عاقبت کا ہے، یعنی اہل علم کی تلاوتِ کتاب، اقامتِ صلاۃ اور خرچ کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ انھیں ان کے اجر پورے دے گا اور اپنے فضل سے مزید بھی دے گا۔ یہ لام علت اور وجہ بیان کرنے کے لیے بھی ہو سکتا ہے، یعنی علم والے لوگ قرآن کی تلاوت، اقامتِ صلاۃ اور اللہ کے عطا کردہ میں سے خرچ کرتے ہیں، تاکہ وہ انھیں ان کے اجر پورے دے اور اپنے فضل سے مزید بھی عطا فرمائے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَيُوَفِّيْهِمْ اُجُوْرَهُمْ وَ يَزِيْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ ﴾ [ النساء : ۱۷۳ ] ’’پھر جو لوگ تو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے سو وہ انھیں ان کے اجر پورے دے گا اور انھیں اپنے فضل سے زیادہ بھی دے گا۔‘‘ اپنے فضل سے مزید عطا کرنے میں ایک نیکی کو سات سو نیکیوں تک یا اس سے بھی زیادہ بڑھانا ہے، پھر چند روزہ زندگی کے عمل پر ہمیشہ کی جنت عطا کرنا ہے، پھر جنت کی تمام نعمتوں سے بڑی نعمت اپنا دیدار عطا فرمانا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰى وَ زِيَادَةٌ ﴾ [ یونس : ۲۶ ] ’’جن لوگوں نے نیکی کی انھی کے لیے نہایت اچھا بدلا اور کچھ زیادہ ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان خوش نصیبوں میں شامل فرمائے۔ (آمین) 2۔ اِنَّهٗ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ : یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اہل ایمان کے گناہوں پر بے حد پردہ ڈالنے والا اور ان کے نیک اعمال کی بے حد قدر کرنے والا ہے۔