إِنَّ الَّذِينَ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَأَنفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَاهُمْ سِرًّا وَعَلَانِيَةً يَرْجُونَ تِجَارَةً لَّن تَبُورَ
جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے، نماز قائم کرتے، اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں سے خفیہ اور علانیہ خرچ کرتے ہیں وہ ایسی تجارت کے امیدوار [٣٤] ہیں جس میں کبھی خسارہ نہ ہوگا۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْنَ يَتْلُوْنَ كِتٰبَ اللّٰهِ ....: یہ بات ذکر کرنے کے بعد کہ علماء ہی وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں، ان کے تین اوصاف ذکر فرمائے، پھر انھیں ملنے والے اجر کا ذکر فرمایا۔ ان تین اوصاف میں سے پہلا وصف اللہ تعالیٰ کی کتاب کی تلاوت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے علم کا سرچشمہ وہی ہے اور اسی سے اللہ کی خشیت پیدا کرنے والا علم حاصل ہوتا ہے۔ دوسری اور تیسری صفت اس علم کے تقاضے پر عمل کرتے ہوئے نماز قائم کرنا اور اس کے دیے ہوئے میں سے خفیہ اور علانیہ ہر طرح سے خرچ کرنا ہے۔ یہ تینوں چیزیں علم و عمل کی بنیاد ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے یہود کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے اللہ کی کتاب کو پیٹھ کے پیچھے پھینک دیا : ﴿ فَنَبَذُوْهُ وَرَآءَ ظُهُوْرِهِمْ﴾ [ آل عمران : ۱۸۷ ] ’’تو انھوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا۔‘‘ اور نماز قائم کرنے کے بجائے اسے ضائع کر دیا اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بجائے خواہش پرستی، سود خوری اور شدید بخل کو اپنا شیوہ بنا لیا، فرمایا : ﴿ فَخَلَفَ مِنْۢ بَعْدِهِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوةَ وَ اتَّبَعُوا الشَّهَوٰتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴾ [ مریم : ۵۹ ] ’’پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔‘‘ جس کے نتیجے میں وہ اس علم سے محروم ہو گئے جس سے خشیّتِ الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ 2۔ يَرْجُوْنَ تِجَارَةً لَّنْ تَبُوْرَ : علم و ایمان والوں کے عمل کو تجارت کے ساتھ تشبیہ اس لیے دی گئی ہے کہ آدمی دنیا میں جو بھی تجارت کرتا ہے، اس میں اپنا سرمایہ اور محنت و قابلیت اس امید پر صرف کرتا ہے کہ اسے اصل کے ساتھ ساتھ نفع بھی حاصل ہو گا، اس کے باوجود اسے نفع کی امید کے ساتھ خسارے کا بلکہ اصل سرمایہ برباد ہونے کا ڈر بھی رہتا ہے، مگر اللہ کے بندے جو اپنے اوقاتِ عزیزہ کو، جو ان کی زندگی کا سرمایہ ہیں، اللہ تعالیٰ کے احکام کی تعمیل کے سودے میں صرف کرتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اپنے سودے میں نفع ہی نفع کی امید ہے، خسارے کا یا اصل سرمایہ برباد ہونے کا کوئی خوف نہیں۔