أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجْنَا بِهِ ثَمَرَاتٍ مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهَا ۚ وَمِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌ بِيضٌ وَحُمْرٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهَا وَغَرَابِيبُ سُودٌ
کیا تم دیکھتے نہیں کہ اللہ آسمان سے پانی برساتا ہے جس سے ہم رنگا رنگ [٣٢] کے پھل پیدا کرتے ہیں۔ اور پہاڑوں میں بھی مختلف رنگوں کی سفید سرخ اور گہری سیاہ دھاریاں ہوتی ہیں۔
1۔ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ....: یعنی اس کائنات میں اشیاء کا اختلاف اللہ تعالیٰ کی قدرت کی دلیل ہے، جیسا کہ میٹھے دریا اور نمکین سمندر، نابینا اور بینا لوگ، اندھیرے اور روشنی، سایہ اور لُو، مردہ اور زندہ، مومن اور کافر کی مثالیں گزر چکی ہیں۔ اب نباتات و جمادات کی بوقلمونی اور رنگا رنگی پر غور کرو، اگر ایک صانع حکیم کی کاریگری نہ ہوتی تو کائنات میں یہ رنگا رنگی کبھی نہ ہوتی۔ یہ اندھے، بہرے اور شعور سے عاری مادے کا کام نہیں، بلکہ اس قادرِ مطلق کا کام ہے جس نے اس اختلاف کو اپنی وحدانیت اور کمال قدرت کی دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے۔ 2۔ ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘ کا لفظی معنی ہے ’’کیا تو نے نہیں دیکھا؟‘‘ یہ کلمہ بعض اوقات ایسے شخص سے کہا جاتا ہے جسے پہلے اس بات کا علم ہو، اس وقت یہ تعجب کے اظہار کے لیے ہوتا ہے اور بعض اوقات ایسے شخص سے کہا جاتا ہے جسے پہلے علم نہیں ہوتا۔ اس وقت مقصود اسے بتانا اور اسے تعجب میں ڈالنا ہوتا ہے۔ یہ کلمہ اس دوسرے مفہوم میں ضرب المثل کے طور پر مشہور ہے، گویا جس شخص نے ایک چیز نہیں دیکھی اسے دیکھنے والے شخص کی طرح قرار دے کر اس سے بات کی جاتی ہے، اس لحاظ سے کہ یہ ایسی چیز ہے جس سے تمھارا لاعلم ہونا مناسب ہی نہیں، پھر اس سے اس شخص کی طرح بات کی جاتی ہے جس نے اسے دیکھا ہو اور اسے اچھی طرح جانتا ہو۔ آیت میں ’’ اَلَمْ تَرَ ‘‘ کا معنی ’’أَلَمْ تَعْلَمْ‘‘ ہے، کیا تو نے نہیں جانا، یعنی یقیناً تم جانتے ہو۔ (ملخص از آلوسی) 3۔ یعنی اے مردِ عاقل! یقیناً تو جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے بہت سا پانی اتارا (’’ مَآءً ‘‘ کی تنوین تکثیر کے لیے ہے) پھر اس کے ساتھ زمین سے بہت سے پھل اگائے، جن کے رنگ، شکلیں، اقسام اور ذائقے مختلف ہیں۔ کوئی سرخ ہے، کوئی زرد، کوئی سبز، کوئی میٹھا، کوئی کھٹا اور کوئی اس کے علاوہ، حالانکہ سب ایک ہی زمین سے پیدا ہوئے اور ایک ہی پانی سے سیراب ہوئے ہیں، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَ فِي الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِيْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَيْرُ صِنْوَانٍ يُّسْقٰى بِمَآءٍ وَّاحِدٍ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰى بَعْضٍ فِي الْاُكُلِ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ﴾ [ الرعد : ۴ ] ’’اور زمین میں ایک دوسرے سے ملے ہوئے مختلف ٹکڑے ہیں اور انگوروں کے باغ اور کھیتی اور کھجور کے درخت کئی تنوں والے اور ایک تنے والے، جنھیں ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے اور ہم ان میں سے بعض کو پھل میں بعض پر فوقیت دیتے ہیں۔ بلاشبہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقیناً بہت سی نشانیاں ہیں جو سمجھتے ہیں۔‘‘ 4۔ ’’ اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰهَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً ‘‘ میں اللہ تعالیٰ نے پانی اتارنے میں اپنا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ فرمایا، پھر ’’فَاَخْرَجْنَا بِهٖ‘‘میں اپنا ذکر جمع متکلم کے صیغے کے ساتھ کیا ہے، اسے ’’التفات‘‘ کہتے ہیں۔ اس سے مقصود زمین سے اتنی مختلف چیزیں اگانے میں اپنی کمال قدرت کو نمایاں کرنا ہے کہ یہ سب کچھ ہم نے سرانجام دیا ہے۔ 5۔ وَ مِنَ الْجِبَالِ جُدَدٌۢبِيْضٌ ....: ’’ جُدَدٌ‘‘ ’’جُدَّةٌ‘‘ کی جمع ہے، اس کا معنی راستہ اور لکیر ہے۔ مراد پہاڑوں میں مختلف رنگوں کی دھاریاں اور قطعے ہیں۔ ’’ سُوْدٌ ‘‘ ’’أَسْوَدُ‘‘ کی جمع ہے۔ ’’ غَرَابِيْبُ ‘‘ جمع ہے ’’غِرْبِيْبٌ‘‘ کی۔ جب کسی چیز کو زیادہ سیاہ کہنا ہو تو ’’أَسْوَدُ‘‘ کی تاکید کے طور پر یہ لفظ آتا ہے، یعنی ’’أَسْوَدُ غِرْبِيْبٌ‘‘ جیسا کہ اردو میں ’’کالا سیاہ‘‘ یا ’’کالا بھجنگا‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہاں آیات کے فواصل کی مناسبت سے ’’ غَرَابِيْبُ ‘‘ کو پہلے کر دیا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے نمونوں میں سے ایک اور نمونے کا ذکر ہے، فرمایا ہماری قدرت ہی کا کرشمہ ہے کہ پہاڑوں میں مختلف رنگوں کے قطعے ہیں، کوئی سفید ہیں، کوئی سرخ اور کوئی کالے سیاہ اور کوئی کسی اور رنگ کے، کسی کی کوئی شکل ہے کسی کی کوئی اور، کوئی چھوٹا ہے کوئی بڑا، کوئی پتھر کا ہے کوئی مٹی کا، کوئی سنگ مرمر کا ہے کوئی نمک کا اور کوئی کسی اور چیز کا۔ ’’ غَرَابِيْبُ سُوْدٌ ‘‘ میں ایک مزید اہم نکتے کی طرف توجہ دلائی ہے کہ پہلے تو نباتات و جمادات کے رنگ مختلف ہیں، پھر ہر رنگ میں مزید اختلاف ہے، کوئی کالا ہے، کوئی اس سے زیادہ کالا اور کوئی کالا سیاہ۔ انسانوں کے سروں کے بالوں کی سیاہی کو ہی دیکھ لو کہ ایک شخص کے سر کے بالوں کی سیاہی دوسرے کے سر کے بالوں کی سیاہی سے مختلف ہے۔ دیکھتے جاؤ اور تعجب کرتے جاؤ کہ اس قادر مطلق کے کارخانۂ حکمت کی رنگا رنگی کی کوئی حد ہے کہ اس نے آدم علیہ السلام سے لے کر آخری انسان کے سر کے بالوں کی سیاہی کو دوسرے انسان کے سر کے بالوں کی سیاہی سے الگ بنایا ہے اور اس کے ہاتھوں کی لکیروں اور آنکھ کی پتلی بلکہ جسم کی ہر چیز کو دوسرے سے مختلف بنایا ہے۔ ہر درخت کے سبز رنگ کو دوسرے کے سبز رنگ سے الگ بنایا ہے، اس کے ہر پتے کی لکیریں دوسرے پتے سے الگ ہیں۔ ہر پھل مثلاً آم، جامن اور کھجور کو دوسرے سے الگ تو بنایا ہی ہے، پھر ہر پھل کے اندر اتنا تنوع رکھ دیا ہے کہ آم اور کھجور وغیرہ کی گٹھلی سے پیدا ہونے والا پھل پہلے درخت کے پھل سے الگ قسم کا ہے، جس کی گٹھلی سے وہ پیدا ہوا ہے، جیسا کہ ہر انسان اپنے ماں باپ سے الگ رنگ اور الگ شکل و صورت کا ہے۔ غرض ہر چیز کا رنگ الگ ہے اور اس رنگ مثلاً سفید یا سرخ یا زرد یا سیاہ میں سے ہر سفید ، سرخ، زرد اور سیاہ کی سفیدی، سرخی، زردی اور سیاہی دوسرے سے مختلف ہے، یہی حال اس کے ذائقے کا ہے۔ ﴿فَتَبٰرَكَ اللّٰهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ﴾ [ المؤمنون : ۱۴ ] ’’سو بہت برکت والا ہے اللہ جو بنانے والوں میں سب سے اچھا ہے۔‘‘