هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ ۚ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ
وہی تو ہے جس نے زمین میں موجود ساری چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔ پھر آسمان (بلندی۔ فضائے بسیط) کی طرف متوجہ ہوا تو سات آسمان استوار کردیئے۔[٣٧] اور وہ ہر چیز کے متعلق خوب جاننے والا ہے
1۔ یہ انسان کے کفر پر تعجب کے لیے اللہ کے مزید احسانات کا ذکر ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے سب اس اکیلے نے پیدا کیا اور تمھارے لیے پیدا کیا، پھر اس نے آسمانوں کو درست کر کے سات آسمان بنائے، ایسے محسن سے تم کس طرح کفر کرتے ہو؟ وہ تو ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے، تمھارا کفر بھی اس سے مخفی نہیں ، اپنا انجام خود سوچ لو۔ 2۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ زمین آسمان سے پہلے پیدا کی گئی، یہی بات سورۂ حم سجدہ کی آیات ۹ تا ۱۲ سے ثابت ہوتی ہے، مگر سورۂ نازعات میں : ﴿ وَ الْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِكَ دَحٰىهَا﴾ بظاہر اس کے خلاف ہے، تطبیق کے لیے دیکھیے سورۂ نازعات(۳۰) 3۔ ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : یہاں ”اسْتَوٰٓى“ کے ضمن میں ارادہ کرنے اور متوجہ ہونے کا معنی رکھا گیا ہے، کیونکہ اسے ’’ اِلَى ‘‘ کے ساتھ متعدی کیا گیا ہے۔ 4۔ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ زمین میں جو کچھ ہے مجموعی طور پر انسان کے فائدے کے لیے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمین کی ہر چیز ہر انسان کے لیے حلال ہے، بلکہ اسے یہ فائدہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے تحت اٹھانا ہو گا۔