وَقَدْ كَفَرُوا بِهِ مِن قَبْلُ ۖ وَيَقْذِفُونَ بِالْغَيْبِ مِن مَّكَانٍ بَعِيدٍ
حالانکہ اس سے پہلے وہ (دنیا میں) انکار کرچکے تھے اور بن دیکھے (اندھیرے میں) انہیں بہت دور کی سوجھتی [٧٨] تھی۔
1۔ وَ قَدْ كَفَرُوْا بِهٖ مِنْ قَبْلُ: یعنی اس سے پہلے جب ایمان لانے کا وقت تھا تو اس کے ساتھ کفر کرتے رہے۔ 2۔ وَ يَقْذِفُوْنَ بِالْغَيْبِ مِنْ مَّكَانٍۭ بَعِيْدٍ : غیب سے مراد بِن دیکھے ہے۔ دور سے پتھر یا تیر پھینکا جائے، پھر ایسے نشانے پر پھینکا جائے جسے دیکھا ہی نہ ہو تو وہ پتھر یا تیر نشانے پر کیسے پہنچ سکتا ہے۔ یعنی یہ لوگ دنیا میں اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کے رسول اور آخرت کے انکار پر اڑے رہے اور ان کے متعلق کچھ بھی جانے بغیر طرح طرح کی باتیں کرتے رہے، کبھی رسول کا مذاق اڑاتے، اسے مجنون، ساحر، کذّاب کہتے، کبھی اہلِ ایمان پر پھبتیاں کستے، کبھی موت کے بعد زندگی کو ناممکن قرار دیتے رہے۔ الغرض! جو منہ میں آیا بے باکی اور بے خوفی سے بکتے رہتے اور انھیں اقرار بھی تھا کہ ہم جو کچھ کہہ رہے ہیں گمان کی بنا پر کہہ رہے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِنْ نَّظُنُّ اِلَّا ظَنًّا وَّ مَا نَحْنُ بِمُسْتَيْقِنِيْنَ﴾ [ الجاثیۃ : ۳۲ ] ’’ہم تو محض معمولی سا گمان کرتے ہیں اور ہم ہرگز پورا یقین کرنے والے نہیں۔‘‘ حقیقت بھی یہی ہے کہ شرک، دہریت اور انکارِ آخرت کے عقائد کوئی شخص بھی یقین کی بنا پر اختیار نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے۔ کفر کی پوری عمارت محض قیاس و گمان کی بنیاد پر ہے، علم و یقین پر نہیں۔