قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ ۖ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَىٰ وَفُرَادَىٰ ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا ۚ مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ ۚ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ
آپ ان سے کہئے کہ : میں تمہیں ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ اللہ کے واسطے [٧٠] تم دو دو مل کر اور اکیلے اکیلے رہ کر خوب سوچو کہ آیا تمہارے صاحب ( رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں کوئی جنون کی بات ہے؟ وہ تو محض ایک سخت عذاب سے پہلے تمہیں ڈرانے والا [٧١] ہے۔
1۔ قُلْ اِنَّمَا اَعِظُكُمْ بِوَاحِدَةٍ ....: ’’ جِنَّةٍ ‘‘ کا معنی جنون، دیوانگی اور پاگل پن ہے۔ مشرکین کے باطل اقوال کے رد کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہایت قوی دلائل، مؤثر اسالیب اور مختلف انداز سے حق بات سمجھانے کی تلقین فرمائی۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کذّاب اور ساحر کے علاوہ مجنون، یعنی دیوانہ بھی کہتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا، ان سے کہو کہ میں تمھیں صرف ایک نصیحت کرتا ہوں کہ بڑی مجلسوں میں تو شوروغل، بھیڑ بھاڑ اور اجتماعی دباؤ کی وجہ سے آدمی صحیح طرح سوچ نہیں سکتا، تم ضد اور تعصّب کو نکال کر اکیلے اکیلے یا دو دو ہو کر سوچو کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آخر تمھارا صاحب ہے، تمھارے ساتھ اس نے نبوت سے پہلے چالیس برس گزارے، جسے تم صادق اور امین کہتے تھے، جس کی معاملہ فہمی اور درست رائے کی شہادت تم بھی دیتے تھے، اب اس نے جب تمھیں اللہ کا پیغام پہنچایا تو تم نے اسے مجنون کہنا شروع کر دیا، لہٰذا تم اس کی لائی ہوئی ہر بات پر پوری طرح غور کرو اور سوچ کر بتاؤ کہ آخر ان میں سے کون سی بات ہے جسے تم جنون کہہ سکو؟ کیا اللہ کو ایک ماننا دیوانگی ہے؟ کیا زنا، چوری، قتل نفس اور بہتان سے منع کرنا دیوانگی ہے؟ کیا صدق، عفاف، امانت، مہمان نوازی اور ہمدردی کا حکم دینا دیوانگی ہے؟ کسی ایک بات پر انگلی رکھ کر تو بتاؤ کہ یہ بات دیوانے کی بات ہے۔ یہ تفسیر ’’ مَا ‘‘ کو استفہامیہ مان کر ہے، اگر ’’ مَا ‘‘ نافیہ ہو تو معنی ہو گا کہ تمھارے ساتھی میں کسی طرح کا جنون نہیں۔ یہ معنی بھی درست ہے۔ 2۔ اِنْ هُوَ اِلَّا نَذِيْرٌ لَّكُمْ ....: یعنی پیغمبر تو تمھیں ایک نہایت سخت عذاب آنے سے پہلے اس سے ڈرانے والا ہے، تو تم اچھی طرح سوچ کر فیصلہ کرو کہ اپنی قوم کو شدید عذاب آنے سے پہلے آگاہ کر کے اس سے بچانے کی کوشش کرنے والا دیوانہ ہوتا ہے یا اس کا ہمدرد اور خیر خواہ۔ بخاری نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے، ابن عباس رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن صفا پہاڑی پر چڑھے اور فرمایا : ’’يَا صَبَاحَاهُ‘‘ (جو کسی اہم خطرے سے آگاہ کرنے کے لیے کہا جاتا تھا) تو قریش آپ کے پاس جمع ہو گئے اور کہنے لگے : ’’تمھیں کیا ہوا؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَخْبَرْتُكُمْ أَنَّ الْعَدُوَّ يُصَبِّحُكُمْ أَوْ يُمَسِّيْكُمْ أَمَا كُنْتُمْ تُصَدِّقُوْنِيْ؟ )) ’’یہ بتاؤ کہ اگر میں تمھیں اطلاع دوں کہ دشمن تم پر صبح حملہ کرے گا یا شام حملہ کرے گا تو کیا تم مجھے سچا سمجھو گے؟‘‘ انھوں نے کہا : (( بَلٰی )) ’’کیوں نہیں!‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( فَإِنِّيْ نَذِيْرٌ لَّكُمْ بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيْدٍ )) ’’تو پھر میں تمھیں ایک نہایت سخت عذاب سے پہلے اس سے ڈرانے والا ہوں۔‘‘ تو ابو لہب نے کہا : (( تَبًّا لَكَ أَلِهٰذَا جَمَعْتَنَا؟)) ’’تیرے لیے ہلاکت ہو، کیا تو نے ہمیں اس لیے جمع کیا ہے؟‘‘ تو اللہ تعالیٰ نے یہ (سورت) اتاری : ﴿ تَبَّتْ يَدَا اَبِيْ لَهَبٍ وَّ تَبَّ ﴾ [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿إن ھو إلا نذیر لکم....﴾ : ۴۸۰۱ ]