وَيَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيعًا ثُمَّ يَقُولُ لِلْمَلَائِكَةِ أَهَٰؤُلَاءِ إِيَّاكُمْ كَانُوا يَعْبُدُونَ
اور جس دن اللہ تمام انسانوں کو جمع کرے گا پھر فرشتوں [٦٢] سے پوچھے گا :’’کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کیا کرتے تھے؟‘‘
1۔ وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ جَمِيْعًا ثُمَّ يَقُوْلُ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ....: اس کا عطف’’ وَ لَوْ تَرٰى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ مَوْقُوْفُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ‘‘ پر ہے۔ پہلے مستکبرین کے مستضعفین سے بری ہونے کا ذکر فرما کر اس دن ان کی بری حالت کا نقشہ کھینچا ہے، اب فرشتوں کے ان سے بری ہونے کا ذکر فرما کر اس دن ان کے ذلیل وخوار اور بے یار و مددگار ہونے کا ذکر فرمایا۔ 2۔ مفسر عبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’مشرکین خواہ دور نبوی کے ہوں یا اس سے پہلے دور کے یا مابعد کے دور کے، وہ یہ نہیں کہتے تھے کہ ہم ان بتوں کو پوجتے ہیں، یا ان قبروں کو پوجتے ہیں، بلکہ ان کے اعتقاد کے پیچھے ان کا ایک پورا گھڑا ہوا فلسفہ ہوتا ہے۔ مثلاً سورج کی پوجا کرنے والے پہلے سورج کی روح کا ایک خیالی نقشہ یا تصویر قائم کرتے ہیں، پھر اس خیالی تصویر کے مطابق اس کا مجسّمہ بناتے ہیں، پھر یہ سمجھتے ہیں کہ اس مجسّمے کے ساتھ سورج کی روح کا ہر وقت تعلق قائم رہتا ہے اور ہم جو سورج کے مجسّمے کو پوجتے ہیں تو دراصل یہ اس بت کی نہیں بلکہ ہم سورج دیوتا کی عبادت کرتے ہیں۔ مشرکین نے اس طرح کی کئی دیویاں اور دیوتا بنا رکھے تھے، پھر یہ مجسّمے مظاہر قدرت ہی کے نہیں بلکہ بعض صفات کے بھی ہوتے تھے اور ان صفات کو بھی سیاروں سے منسوب کر دیا جاتا تھا۔ مثلاً فلاں علم کی دیوی، فلاں دولت کی دیوی ہے وغیرہ وغیرہ، پھر کچھ مشرک فرشتوں کے خیالی مجسّمے بنا کر ان کی پوجا کرتے تھے۔ مشرکین عرب کی ایک کثیر تعداد ایسی ہی تھی جو فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے اور لات، منات اور عزیٰ کے مجسّمے بنا کر ان کی عبادت کرتے، تو سمجھتے یہی تھے کہ ہم ان بتوں کی نہیں بلکہ ان فرشتوں کی عبادت کرتے ہیں جن کی ارواح ان مجسّموں یا بتوں سے وابستہ رہتی ہیں۔ اسی طرح قبر پرست بھی یہ سمجھتے تھے کہ ہم اس قبر کے پرستار نہیں، بلکہ ہماری سب نیاز مندیاں اور نذریں نیازیں تو صاحب قبر کے لیے ہیں، جس کی روح اس کی قبر کے ساتھ وابستہ رہتی ہے۔ ان تمام معبودوں سے چونکہ فرشتے ہی برتر مخلوق ہیں، لہٰذا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ مشرکوں کو شرمندہ کرنے اور انھیں حسرت دلانے کے لیے انھی سے سوال کرے گا کہ یہ لوگ تمھاری ہی عبادت کرتے تھے؟ کیا تم نے انھیں ایسا کہا تھا کہ تمھاری عبادت کیا کریں، یا کچھ اس قسم کی آرزو تم نے کی تھی؟ اور یہ سوال اگرچہ فرشتوں سے ہو گا مگر مقصد ان کی پوجا کرنے والوں کو رسوا اور لاجواب کرنا ہو گا۔‘‘ 3۔ قیامت کے روز یہ سوال فرشتوں ہی سے نہیں ہو گا بلکہ ان تمام ہستیوں سے کیا جائے گا جن کی دنیا میں عبادت ہوتی تھی۔ سورۂ فرقان میں ہے : ﴿ وَ يَوْمَ يَحْشُرُهُمْ وَ مَا يَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَيَقُوْلُ ءَاَنْتُمْ اَضْلَلْتُمْ عِبَادِيْ هٰؤُلَآءِ اَمْ هُمْ ضَلُّوا السَّبِيْلَ ﴾ [ الفرقان:۱۷] ’’اور جس دن وہ انھیں اور جن کو وہ اللہ کے سوا پوجتے تھے، اکٹھا کرے گا، پھر کہے گا کیا تم نے میرے ان بندوں کو گمراہ کیا، یا وہ خود راستے سے بھٹک گئے تھے؟‘‘ اور سورۂ مائدہ میں ہے : ﴿ وَ اِذْ قَالَ اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَاَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِيْ وَ اُمِّيَ اِلٰهَيْنِ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ﴾ [ المائدۃ:۱۱۶] ’’اور جب اللہ فرمائے گا، اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے یہ کہا کہ اللہ کے سوا مجھے اور میری ماں کو معبود بنا لو؟‘‘