قُلِ ادْعُوا الَّذِينَ زَعَمْتُم مِّن دُونِ اللَّهِ ۖ لَا يَمْلِكُونَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ وَمَا لَهُمْ فِيهِمَا مِن شِرْكٍ وَمَا لَهُ مِنْهُم مِّن ظَهِيرٍ
(اے نبی!) آپ ان سے کہئے کہ : جن کو تم اللہ کے سوا (الٰہ) سمجھ رہے ہو انھیں پکار کر دیکھ لو۔ وہ تو آسمانوں اور زمین کے موجودات میں ذرہ بھر بھی اختیار نہیں رکھتے، نہ ہی ان موجودات میں ان کی کچھ شرکت ہے اور نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ کا مددگار ہے
1۔ قُلِ ادْعُوا الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ ....: سورت کی ابتدا اس بات سے ہوئی کہ آسمان و زمین میں جو کچھ ہے اس کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے اور دنیا اور آخرت میں حمد کا سزا وار بھی وہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ذکر فرمایا کہ کفار آخرت کا انکار کرتے ہیں، جب کہ وہ ضرور آئے گی۔ اس کے بعد آخرت پر ایمان رکھنے والوں اور اس کے منکروں کی اور ان کے اچھے اور برے انجام کی مثال کے طور پر داؤد و سلیمان علیھما السلام کا اور قومِ سبا کا ذکر فرمایا۔ آخرت کے بیان کے بعد یہاں سے پھر اسی توحید کا بیان شروع ہوتا ہے جس سے سورت کا آغاز ہوا تھا۔ 2۔ لَا يَمْلِكُوْنَ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ....: یعنی اللہ تعالیٰ تو جسے چاہتا ہے داؤد و سلیمان علیھما السلام کی طرح نواز دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے قومِ سبا کی طرح برباد کر دیتا ہے، کیونکہ وہ آسمان و زمین کی ہر چیز کا مالک ہے، اب تم اپنے بناوٹی معبودوں کو پکارو، بھلا وہ تمھاری کوئی مدد کر سکتے ہیں؟ نہیں، ہر گز نہیں، کیونکہ مدد وہ تب کریں جب ان کے پاس کوئی چیز ہو، وہ تو آسمان و زمین میں موجود ایک ذرے کے مالک بھی نہیں۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۱۳)، مومنون (۸۸، ۸۹)، نحل (۷۳)، یونس (۱۰۶) اور سورۂ جنّ (۲۱، ۲۲)۔ 3۔ وَ مَا لَهُمْ فِيْهِمَا مِنْ شِرْكٍ : یہ اس بات کا رد ہے کہ چلیے پورے مالک نہ سہی، ملکیت و اختیار میں ان کا کچھ حصہ ضرور ہے۔ دیکھیے سورۂ فاطر (۴۰) اور سورۂ احقاف (۴)۔ 4۔ وَ مَا لَهٗ مِنْهُمْ مِّنْ ظَهِيْرٍ : نہ ہی ان میں سے کوئی اللہ تعالیٰ کا مددگار ہے جس سے کبھی اللہ تعالیٰ نے مدد لی ہو، یا اب مدد لیتا ہو۔ دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۱۱۱) اور سورۂ کہف (۵۱)۔