فَقَالُوا رَبَّنَا بَاعِدْ بَيْنَ أَسْفَارِنَا وَظَلَمُوا أَنفُسَهُمْ فَجَعَلْنَاهُمْ أَحَادِيثَ وَمَزَّقْنَاهُمْ كُلَّ مُمَزَّقٍ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُورٍ
مگر وہ کہنے لگے : ''اے ہمارے پروردگار! ہمارے سفر کی مسافتیں دور دور [٣٠] کردے اور (یہ کہہ کر) انہوں نے اپنے آپ پر ظلم کیا۔ چنانچہ ہم نے انھیں افسانے [٣١] بنا دیا اور تتر بتر کر ڈالا۔ اس میں یقینا ہر صابر و شاکر [٣٢] کے لئے کئی نشانیاں ہیں۔
1۔ فَقَالُوْا رَبَّنَا بٰعِدْ بَيْنَ اَسْفَارِنَا ....: اس کی تفسیر تین طرح سے کی گئی ہے، ایک یہ کہ انھیں یہ نعمتیں راس نہ آئیں، وہ امن و عافیت کی قدر کرنا بھول گئے اور کبرو غرور میں آکر کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی سفر ہے کہ ہر تھوڑی مسافت کے بعد بستی پائی جاتی ہے۔ مزا تو جب آتا کہ دور دراز علاقوں، چٹیل میدانوں، دشوار گزار جنگلوں اور پُرخطر وادیوں سے گزر ہوتا۔ شاہ عبدالقادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’آرام میں مستی یہ آئی، لگے تکلیف مانگنے کہ جیسے اور ملکوں کی خبر سنتے ہیں کہ سفروں میں پانی نہیں ملتا، آبادی نہیں ملتی، ویسا ہم کو بھی ہو، یہ بڑی ناشکری ہوئی۔‘‘ (موضح) ان کی یہ دعا اسی طرح کی ہے جیسے بنی اسرائیل نے من و سلویٰ اور دوسری سہولتوں کے مقابلے میں دالوں اور سبزیوں وغیرہ کا مطالبہ کیا تھا۔ دوسری تفسیر ابن عاشور کی ہے، وہ فرماتے ہیں : ’’میرے نزدیک زیادہ ظاہر بات یہ ہے کہ انھوں نے یہ بات اپنے انبیاء اور صالح لوگوں کے جواب میں کہی، جب وہ انھیں شرک سے منع کرتے تھے، کیونکہ وہ انھیں نصیحت کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر اتنی نعمتیں کی ہیں، سفر اتنا آسان بنا دیا اور اس قدر خوش حالی عطا فرمائی ہے، سو تم پر اس کا شکر کرنا اور اس اکیلے کی عبادت کرنا واجب ہے، تو انھوں نے آگے سے یہ بات کہی جو آیت میں مذکور ہے، جیسا کہ کفارِ قریش نے کہا تھا : ﴿ اللّٰهُمَّ اِنْ كَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِكَ فَاَمْطِرْ عَلَيْنَا حِجَارَةً مِّنَ السَّمَآءِ اَوِ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ ﴾ [الأنفال:۳۲] ’’اے اللہ! اگر صرف یہی تیری طرف سے حق ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا، یا ہم پر کوئی دردناک عذاب لے آ۔‘‘ دلیل اس کی یہ ہے کہ اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿فَاَعْرَضُوْا ﴾ ’’انھوں نے منہ موڑ لیا‘‘ ظاہر ہے منہ کسی دعوت ہی سے موڑا جاتا ہے۔ اس کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے کہ ان کی اس بات کے بعد فرمایا : ﴿وَ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ ﴾ ’’اور انھوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا‘‘ یعنی انھوں نے نا شکری اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا، قرآن میں ظلم کا لفظ اکثر شرک کے لیے آیا ہے، کیونکہ اس سے بڑا ظلم کوئی نہیں۔‘‘ تیسری تفسیر وہ ہے جس کی طرف تقریباً تمام مفسرین نے اشارہ فرمایا ہے کہ یہ ان کی زبانِ حال کی بات ہے۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی ناشکری کرتا ہے وہ گویا زبانِ حال سے کہتا ہے کہ پروردگارا! میں ان نعمتوں کا مستحق نہیں ہوں۔ اسی طرح جو قوم اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کرتی اور سرکشی کا رویہ اختیار کرتی ہے، وہ گویا اپنے رب سے دعا کرتی ہے کہ اے پروردگارا! یہ نعمتیں ہم سے واپس لے لے، کیونکہ ہم اس قابل نہیں ہیں۔ 2۔ وَ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ: یعنی انھوں نے کفر و شرک پر اصرار کیا۔ 3۔ فَجَعَلْنٰهُمْ اَحَادِيْثَ ....: یعنی ہم نے انھیں اس طرح برباد اور منتشر کیا کہ وہ بکھرنے کے لیے کہاوت اور ضرب المثل بن گئے۔ مختلف قبائل کے سیلاب سے بچ نکلنے والے لوگ اپنا وطن چھوڑ کر عرب کے مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ غسانیوں نے اردن اور شام کا رخ کیا، اوس اور خزرج کے قبیلے یثرب میں جا بسے، خزاعہ نے جدہ کے قریب تہامہ کے علاقہ میں سکونت اختیار کی۔ ازد کا قبیلہ عمان میں جا کر آباد ہوا، لخم اور کندہ بھی نکلنے پر مجبور ہوئے، حتیٰ کہ سبا نام کی کوئی قوم دنیا میں موجود نہ رہی، صرف کہاوتوں اور افسانوں میں اس کا ذکر باقی رہ گیا۔ 4۔ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ : قوم سبا پر لازم تھا کہ ان بے حساب نعمتوں کی قدر کرتے اور ان کا شکر ادا کرتے جن کا ان آیات میں ذکر ہوا، پھر جب عذاب آیا تو لازم تھا کہ گناہوں سے توبہ کرتے اور مصیبت پر صبر کرتے۔ ان کے سردار ملک کے نظام کو دوبارہ درست کرنے کی کوشش کرتے، امن بحال کرتے، پہلے کی طرح زرعی ضرورتوں اور سفری سہولتوں کا بندوبست کرتے، مگر وہ صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ کر مختلف علاقوں میں بکھر گئے اور انھوں نے نہ اللہ کے انعامات کا شکر کیا، نہ مصیبت آنے پر تائب ہوئے اور نہ صبر سے وہاں رہ کر ان کے سرداروں نے ملک کی اصلاح کی کوشش کی، بلکہ جس کا جدھر منہ آیا نکل گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ صبر اور شکر لازم و ملزوم ہیں۔ شکر وہی کرتا ہے جو تقدیر میں سے اپنے حصے پر صابر ہو اور صبر وہی کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں کی قدر جانتا اور ان کا شکر ادا کرتا ہو جو اسے حاصل ہیں۔ سبا کے واقعات میں نشانیاں تو ہر شخص کے لیے ہیں، مگر ہر صبّار و شکور کے لیے بہت سی نشانیاں اور عبرتیں اس لیے بتائیں کہ وہی ہیں جو اپنی مصیبتوں پر بہت صبر اور نعمتوں پر بہت شکر کرتے ہیں اور دوسروں پر آنے والی مصیبتوں اور انھیں ملنے والی نعمتوں پر ان کے رویے اور اس کے انجام سے عبرت حاصل کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ نہ صبر کرتے ہیں، نہ شکر اور نہ ہی دوسروں کے حال سے انھیں عبرت ہوتی ہے۔