يَسْأَلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ ۚ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُونُ قَرِيبًا
لوگ آپ سے قیامت کے متعلق [١٠٤] پوچھتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ ’’اس کا علم تو اللہ ہی کے پاس ہے۔ اور آپ کو کیا خبر، شاید وہ قریب ہی آپہنچی ہو‘‘
1۔ يَسْـَٔلُكَ النَّاسُ عَنِ السَّاعَةِ: قرطبی نے فرمایا : ’’ان سوال کرنے والوں سے مراد وہی پیغمبر کو ایذا دینے والے، دل کے بیمار، منافق اور جھوٹی خبریں اڑانے والے لوگ ہیں، جن کا پیچھے ذکر ہوا، جب ان کو عذاب مہین سے ڈرایا جاتا تو وہ کہتے ’’اَلسَّاعَةُ‘‘ عذاب کی وہ گھڑی، یعنی قیامت کب ہے؟ مقصد ان کا پوچھنا نہیں تھا، بلکہ اس کا انکار اور مذاق اڑانا اور پیغمبر کو لاجواب کرنا تھا کہ انھیں اتنا بھی علم نہیں کہ قیامت کب ہو گی۔‘‘ دیکھیے سورۂ اعراف (۱۸۷)، طٰہٰ (۱۵)، نمل (۶۶)، نازعات (۴۲ تا ۴۴) اور سورۂ ملک (۲۵ تا ۲۷) وغیرہ۔ 2۔ قُلْ اِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللّٰهِ : یعنی اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے اور اگر اللہ تعالیٰ نے اس کا علم دوسرے تمام لوگوں کی طرح مجھ سے بھی مخفی رکھا ہے تو اس سے میرے صدق پر کچھ اثر نہیں پڑتا اور نہ نبی ہونے کی یہ شرط ہے کہ وہ غیب دان ہو اور ان باتوں کو بھی جانتا ہو جو اللہ تعالیٰ نے اسے نہیں بتائیں۔ 3۔ وَ مَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ تَكُوْنُ قَرِيْبًا : یعنی اگرچہ اس کے متعین وقت کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر بھی یہ جان لو کہ وہ بہت نزدیک ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَ انْشَقَّ الْقَمَرُ ﴾ [القمر: ۱ ] ’’قیامت بہت قریب آگئی اور چاند پھٹ گیا۔‘‘اور فرمایا :﴿اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُهُمْ وَ هُمْ فِيْ غَفْلَةٍ مُّعْرِضُوْنَ ﴾ [الأنبیاء: ۱ ] ’’لوگوں کے لیے ان کا حساب بہت قریب آگیا اور وہ بڑی غفلت میں منہ موڑنے والے ہیں۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اَتٰى اَمْرُ اللّٰهِ فَلَا تَسْتَعْجِلُوْهُ﴾ [ النحل : ۱ ] ’’اللہ کا حکم آگیا، سو اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو۔‘‘ اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( رَأَيْتُ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ قَالَ بِإِصْبَعَيْهِ هٰكَذَا بِالْوُسْطٰی وَالَّتِيْ تَلِی الْإِبْهَامَ بُعِثْتُ وَالسَّاعَةُ كَهَاتَيْنِ )) [بخاري، التفسیر، باب سورۃ : ﴿ والنازعات ﴾ : ۴۹۳۶ ] ’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ نے اپنی دو انگلیوں درمیانی اور انگوٹھے کے ساتھ والی انگلی کی طرف اشارہ کر کے فرمایا : ’’مجھے اور قیامت کو اس طرح (ساتھ ساتھ) بھیجا گیا ہے۔‘‘ 4۔ یہاں ایک سوال ہے کہ ’’ السَّاعَةِ ‘‘ مؤنث کی خبر ’’ قَرِيْبًا ‘‘ مذکر کیوں ہے؟ جواب کے لیے دیکھیے سورۂ اعراف کی آیت (۵۶) : ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِيْنَ ﴾ کی تفسیر۔