إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا
اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی اس پر درود و سلام [٩٦] بھیجا کرو۔
1۔ اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىِٕكَتَهٗ يُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِيِّ ....: لفظ ’’صلاة‘‘ کی تفسیر اس سے پہلے آیت (۴۳) میں گزر چکی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نسبت سے اور فرشتوں اور مومنوں کی نسبت سے ’’صلاة‘‘ کا کیا معنی ہے۔ اس سورت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہونے والی کئی خصوصیات کا ذکر فرمایا، مثلاً آپ کا مومنوں پر ان کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھنا، آپ کے لیے چار سے زیادہ بیویوں کا حلال ہونا، آپ کا خاتم النّبیین ہونا، آپ کی بیویوں کا امہات المومنین ہونا، ان کے حجاب و احترام کا خصوصی اہتمام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی ازواج سے نکاح کی حرمت وغیرہ۔ ’’ اِنَّ ‘‘ کا لفظ عموماً تعلیل کے لیے، یعنی پہلی باتوں کی علت بیان کرنے کے لیے آتا ہے۔ زیر تفسیر آیت میں مسلمانوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان بلند مراتب کا خاص خیال رکھنے اور ان کے تحفظ و احترام کا حکم دینے کی وجہ ذکر فرمائی۔ ابن کثیر فرماتے ہیں : ’’مقصود اس آیت سے یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ’’ملأ اعلیٰ‘‘ یعنی آسمانوں کی بلند مجلس میں اپنے بندے اور نبی کے مرتبہ و منزلت کی بلندی کی خبر دے رہا ہے کہ خود اللہ تعالیٰ آپ کی تعریف و ثنا کرتا اور آپ پر رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا ہے اور اس کے فرشتے بھی آپ کے لیے رحمت و مغفرت اور بلندی درجات کی دعا کرتے ہیں۔ آسمانوں والوں کی خبر دے کر اب زمین والوں کو حکم دیتا ہے کہ تم بھی آپ پر صلاۃ و سلام بھیجو، تاکہ آپ کی تعریف و ثنا پر اور آپ کے لیے مغفرت و رحمت اور برکت کی دعا پر عالم علوی (آسمانوں والے) اور عالم سفلی (زمین والے) سب متحد ہو جائیں۔‘‘ 2۔ آیت کے آخری الفاظ سے ظاہر ہے کہ کلام میں کچھ الفاظ حذف ہیں، جو خود بخود معلوم ہو رہے ہیں، یعنی ’’ صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ‘‘ سے ظاہر ہے کہ آیت کی ابتدا اس طرح ہے : ’’ إِنَّ اللّٰهَ وَ مَلَائِكَتَهُ يُصَلُّوْنَ عَلَي النَّبِيِّ وَ يُسَلِّمُوْنَ‘‘ اسے احتباک کہتے ہیں اور یہ کلامِ الٰہی کے حسن کا ایک مظہر ہے۔ (بقاعی) انبیاء علیھم السلام پر اللہ تعالیٰ کے سلام کا ذکر قرآن میں الگ الگ بھی آیا ہے، جیسے : ﴿ سَلٰمٌ عَلٰى نُوْحٍ فِي الْعٰلَمِيْنَ ﴾ ، ﴿ وَ سَلٰمٌ عَلٰى اِبْرٰهِيْمَ ﴾ وغیرہ اور اکٹھا بھی آیا ہے، جیسے : ﴿ وَ سَلٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِيْنَ ﴾ [ دیکھیے الصافات : ۷۹، ۱۰۹، ۱۸۱ ] 3۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ پر صلاۃ کے لیے کئی الفاظ مروی ہیں، جو سبھی اس مقصد کے لیے پڑھے جا سکتے ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ہے، وہ فرماتے ہیں : (( سَأَلْنَا رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقُلْنَا يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! كَيْفَ الصَّلَاةُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ؟ فَإِنَّ اللّٰهَ قَدْ عَلَّمَنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ، قَالَ قُوْلُوْا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَ عَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَّجِيْدٌ، اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ )) [ بخاري، أحادیث الأنبیاء، باب : ۳۳۷۰ ] ’’ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : ’’ہم نے کہا : ’’آپ اہلِ بیت (گھر والوں) پر صلاۃ کس طرح ہے؟ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ تو سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم یوں کہو کہ اے اللہ! محمد اور آل محمد پر صلاۃ بھیج، جیسے تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر صلاۃ بھیجی، بے شک تو تعریف کیا ہوا بزرگی والا ہے اور اے اللہ! محمد اور آل محمد پر برکتیں نازل فرما، جس طرح تو نے ابراہیم اور آل ابراہیم پر برکتیں نازل فرمائیں، بے شک تو تعریف کیا ہوا ہے، بزرگی والا ہے۔‘‘ اس حدیث اور دوسری احادیث میں صحابہ کا یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ سکھا دیا ہے کہ ہم آپ پر سلام کیسے بھیجیں، اس سلام سے مراد نماز کے تشہد میں سلام کی تعلیم ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( عَلَّمَنِيْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ، وَ كَفِّيْ بَيْنَ كَفَّيْهِ، التَّشَهُّدَ كَمَا يُعَلِّمُنِي السُّوْرَةَ مِنَ الْقُرْآنِ : اَلتَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْكَ اَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَكَاتُهُ، اَلسَّلَامُ عَلَيْنَا وَ عَلٰی عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِيْنَ، أَشْهَدُ أَنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُوْلُهُ )) [بخاري، الاستئذان، باب الأخذ بالیدین : ۶۲۶۵ ] ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تشہد اس طرح سکھایا جس طرح مجھے قرآن کی کوئی سورت سکھاتے تھے، اس وقت میری ہتھیلی آپ کی دونوں ہتھیلیوں کے درمیان تھی : ’’تمام قولی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں اور تمام بدنی عبادتیں اور تمام مالی عبادتیں، سلام ہو تجھ پر اے نبی! اور اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں، سلام ہو ہم پر اور اللہ کے صالح بندوں پر، میں شہادت دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں شہادت دیتا ہوں کہ محمد اس کا بندہ اور اس کا رسول ہے۔‘‘ جس طرح اس حدیث سے ظاہر ہے کہ آیت میں ’’ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ‘‘ پر عمل کی تعلیم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز میں تشہد کے اندر سلام کے الفاظ کے ساتھ دی ہے، اسی طرح صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صلاۃ کے بھی وہی الفاظ سیکھنے کی درخواست کی جو نماز میں پڑھے جائیں۔ چنانچہ ابو مسعود عقبہ بن عمرو رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( أَقْبَلَ رَجُلٌ حَتّٰی جَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَ نَحْنُ عِنْدَهُ فَقَالَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! اَمَّا السَّلَامُ عَلَيْكَ فَقَدْ عَرَفْنَاهُ فَكَيْفَ نُصَلِّيْ عَلَيْكَ إِذَا نَحْنُ صَلَّيْنَا فِيْ صَلَاتِنَا صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْكَ؟ قَالَ فَصَمَتَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ حَتّٰی أَحْبَبْنَا أَنَّ الرَّجُلَ لَمْ يَسْأَلْهُ فَقَالَ إِذَا أَنْتُمْ صَلَّيْتُمْ عَلَيَّ فَقُوْلُوْا اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ وَ عَلٰی آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰی إِبْرَاهِيْمَ وَ آلِ إِبْرَاهِيْمَ وَ بَارِكْ عَلٰی مُحَمَّدٍ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ كَمَا بَارَكْتَ عَلیٰ إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰی آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيْدٌ مَجِيْدٌ )) [مسند أحمد :4؍119، ح : ۱۷۰۷۶، مسند احمد کے محقق نے بارہ کتب حدیث سے اس حدیث کا حوالہ نقل کر کے اس کی صحت بیان فرمائی ہے ] ’’ایک آدمی آیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، اس نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ پر سلام کو تو ہم جان چکے، اب ہم آپ پر صلاۃ کیسے بھیجیں، جب ہم اپنی نماز میں صلاۃ بھیجیں، اللہ تعالیٰ آپ پر صلاۃ نازل فرمائے؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، حتیٰ کہ ہم نے چاہا کہ یہ شخص یہ سوال نہ کرتا کہ اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جب تم مجھ پر صلاۃ بھیجو تو اس طرح کہو۔‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صلاۃ کے ان الفاظ کی تعلیم دی جو اوپر حدیث میں مذکور ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کے حکم ’’صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا ‘‘ سے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر عمل کے لیے تشہد میں سلام اور صلاۃ کے الفاظ کی بہ نفس نفیس تعلیم سے ظاہر ہے کہ کم از کم نماز میں یہ صلاۃ و سلام پڑھنا ضروری ہے۔ بعض حضرات کی اس بات پر تعجب ہوتا ہے کہ صلاۃ و سلام زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ بلکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ کلمۂ شہادت بھی زندگی میں صرف ایک دفعہ قبولِ اسلام کے وقت پڑھنا فرض ہے۔ حالانکہ صلاۃ کے علاوہ کلمہ شہادت پڑھنے کا حکم بھی ہر تشہد میں، اذان کا جواب دینے میں اور دوسرے کئی مقامات پر آیا ہے۔ اس سے بھی عجیب بات یہ ہے کہ یہ لوگ زندگی میں صرف ایک دفعہ کلمہ اور درود پڑھنا فرض ہونے پر امت کے اجماع کا دعویٰ کرتے ہیں، حالانکہ انھیں خوب معلوم ہے کہ کتنے جلیل القدر ائمہ نے نماز میں درود و سلام کو فرض تسلیم کیا ہے، پھر بھی اپنے غلط دعویٔ اجماع پر اصرار کرتے چلے جاتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ایسے کئی مواقع مذکور ہیں جہاں درود پڑھنے کا حکم ہے۔ 4۔ بہت سی احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر آنے پر صلاۃ بھیجنے کی تاکید آئی ہے۔ علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْبَخِيْلُ الَّذِيْ مَنْ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ )) [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ....: ۳۵۴۶ ] ’’بخیل وہ ہے جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ پڑھے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ ذُكِرْتُ عِنْدَهُ فَلَمْ يُصَلِّ عَلَيَّ وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ دَخَلَ عَلَيْهِ رَمَضَانُ ثُمَّ انْسَلَخَ قَبْلَ أَنْ يُغْفَرَ لَهُ وَ رَغِمَ أَنْفُ رَجُلٍ أَدْرَكَ عِنْدَهُ أَبَوَاهُ الْكِبَرَ فَلَمْ يُدْخِلاَهُ الْجَنَّةَ )) [ ترمذي، الدعوات، باب رغم أنف رجل ذکرت عندہ....: ۳۵۴۵، و قال الألباني حسن صحیح ] ’’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر کیا جائے تو وہ مجھ پر صلاۃ نہ بھیجے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس پر ماہ رمضان آئے، پھر وہ اس کی بخشش ہونے سے پہلے گزر جائے اور اس شخص کی ناک خاک آلود ہو جس کے والدین اس کے پاس بڑھاپے کو پائیں پھر وہ اسے جنت میں داخل نہ کروائیں۔‘‘ ان احادیث کی رو سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر صلاۃ پڑھنا لازم ہے، اگرچہ آپ کا نام آنے پر ہر مرتبہ صلاۃ پڑھنی چاہیے اور محدثین کا یہی قول ہے، تاہم کسی مجلس میں آپ کا نام آنے پر اگر ایک مرتبہ صلاۃ پڑھ لے تو امید ہے کہ صلاۃ نہ پڑھنے کی وعید سے بچ جائے گا۔ جیسا کہ امام ترمذی نے بعض اہلِ علم سے نقل فرمایا ہے، کیونکہ حدیث کے الفاظ میں اس کی گنجائش موجود ہے اور آگے فائدہ (۶) میں مذکور دوسری حدیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔ 5۔ نماز میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جن الفاظ میں صلاۃ پڑھی جاتی ہے نماز کے علاوہ بھی انھی الفاظ میں پڑھی جائے گی، مگر اس کے علاوہ مختصر الفاظ میں بھی پڑھی جا سکتی ہے، جیسا کہ تمام صحابہ کرام جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کرتے یا آپ کا نام لیتے تھے تو ’’صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ‘‘ کے الفاظ ادا کرتے تھے، جیسا کہ تمام کتب احادیث کی تمام احادیث سے ثابت ہے۔ اگر ہر محدث نے اپنے استاذ سے حتیٰ کہ تابعی نے صحابی سے یہ الفاظ نہ سنے ہوتے تو وہ نقل نہ فرماتے، کیونکہ وہ نقل میں نہایت امین تھے، بلکہ ایک حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گزرے ہوئے کسی وقت کو یاد کرتے تو یہی مختصر صلاۃ پڑھتے تھے۔ چنانچہ بخاری میں ہے کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما کے مولیٰ عبداللہ نے بیان کیا : (( أَنَّهُ كَانَ يَسْمَعُ أَسْمَاءَ تَقُوْلُ كُلَّمَا مَرَّتْ بِالْحَجُوْنِ : صَلَّی اللّٰهُ عَلٰی رَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ لَقَدْ نَزَلْنَا مَعَهُ هَاهُنَا، وَ نَحْنُ يَوْمَئِذٍ خِفَافٌ )) [بخاري، العمرۃ، باب متی یحل المعتمر؟ : ۱۷۹۶ ] ’’اسماء رضی اللہ عنھا جب بھی حجون کے پاس سے گزرتیں تو یہ کہتیں ’’صَلَّي اللّٰهُ عَلٰي رَسُوْلِهِ مُحَمَّدٍ‘‘ ہم آپ کے ساتھ یہاں اترے تھے، ان دنوں ہم ہلکی پھلکی تھیں۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر خیر کے وقت ’’صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ‘‘ کے الفاظ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کے صیغے کے ساتھ ’’الصلاة‘‘ کا لفظ، مثلاً ’’اَلصَّلَاةُ عَلَيْكَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی صحابی سے ثابت نہیں، کیونکہ مخلوق کے پاس صلاۃ (رحمت و برکت) ہے ہی نہیں، اس لیے وہ اللہ تعالیٰ ہی سے اسے نازل کرنے کی دعا کر سکتے ہیں۔ 6۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ کی فضیلت اور نہ پڑھنے کی وعید میں بہت سی احادیث مروی ہیں، یہاں دو حدیثیں نقل کی جاتی ہیں : (1) عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ فَقُوْلُوْا مِثْلَ مَا يَقُوْلُ ثُمَّ صَلُّوْا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ صَلّٰی عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا )) [ مسلم، الصلاۃ، باب استحباب القول مثل قول المؤذن....: ۳۸۴ ] ’’جب تم مؤذن کو سنو تو اسی طرح کہو جیسے وہ کہتا ہے، پھر مجھ پر صلاۃ پڑھو، کیونکہ جو مجھ پر ایک بار صلاۃ پڑھے اللہ تعالیٰ اس کے بدلے اس پر دس دفعہ صلاۃ بھیجتا ہے۔‘‘ (2) ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا جَلَسَ قَوْمٌ مَجْلِسًا لَمْ يَذْكُرُوا اللّٰهَ فِيْهِ وَ لَمْ يُصَلُّوْا عَلٰی نَبِيِّهِمْ إِلاَّ كَانَ عَلَيْهِمْ تِرَةً فَإِنْ شَاءَ عَذَّبَهُمْ وَ إِنْ شَاءَ غَفَرَ لَهُمْ )) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في القوم یجلسون....: ۳۳۸۰، و قال الألباني صحیح ] ’’کوئی قوم کسی مجلس میں نہیں بیٹھی جس میں انھوں نے نہ اللہ کا ذکر کیا اور نہ اپنے نبی پر صلاۃ بھیجی، مگر وہ (مجلس) قیامت کے دن ان کے لیے باعث حسرت ہو گی، پھر اگر اس نے چاہا تو انھیں سزا دے گا اور اگر چاہا تو انھیں بخش دے گا۔‘‘