تُرْجِي مَن تَشَاءُ مِنْهُنَّ وَتُؤْوِي إِلَيْكَ مَن تَشَاءُ ۖ وَمَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَن تَقَرَّ أَعْيُنُهُنَّ وَلَا يَحْزَنَّ وَيَرْضَيْنَ بِمَا آتَيْتَهُنَّ كُلُّهُنَّ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ مَا فِي قُلُوبِكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَلِيمًا حَلِيمًا
آپ جس بیوی کو چاہیں علیحدہ رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس رکھیں اور علیحدہ رکھنے کے بعد جسے چاہیں اپنے پاس بلائیں آپ پر کوئی مضائقہ نہیں [٨١]۔ اس طرح زیادہ توقع ہے کہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور وہ غمزدہ نہ ہوں [٨٢] اور جو کچھ بھی آپ انھیں دیں اسی پر خوش رہیں اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے اللہ جانتا [٨٣] ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور بردباد ہے۔
1۔ تُرْجِيْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ ....: اس آیت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بیویوں کے بارے میں مزید رعایتوں کا بیان ہے۔ ان میں سے ایک رعایت یہ ہے کہ جو عورتیں اپنے نفس آپ کے لیے ہبہ کریں، ان میں سے آپ جسے چاہیں مؤخر رکھیں اور جسے چاہیں اپنے پاس جگہ دیں، آپ پر ان کی پیش کش قبول کرنا لازم نہیں اور ایک رعایت یہ ہے کہ جو عورتیں آپ کے نکاح میں ہیں، آپ پر ان کے پاس باری باری جانے کی پابندی نہیں، آپ جس کے پاس چاہیں رات بسر کریں، جسے چاہیں مؤخر رکھیں۔ 2۔ وَ مَنِ ابْتَغَيْتَ مِمَّنْ عَزَلْتَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكَ : تیسری رعایت یہ ہے کہ اگر ان میں سے کسی کی باری آپ نے ختم کی ہو اور دوبارہ اسے طلب کرنا چاہیں، تو اس میں بھی آپ پر کوئی مضائقہ نہیں۔ 3۔ ذٰلِكَ اَدْنٰى اَنْ تَقَرَّ اَعْيُنُهُنَّ ....: بیویوں کا حق ساقط کرنے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیویوں دونوں سے تنگی دور کرنا مقصود تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تنگی دور کرنا تو ظاہر ہی ہے، بیویوں کی تنگی دور کرنا اس لحاظ سے ہے کہ جب ان میں سے ہر ایک کو معلوم ہو جائے گا کہ فلاں باری کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کے ہاں رات بسر کرنا اس کا حق نہیں تو آپ کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسری کے ساتھ بھی ان کی چپقلش اور تنازعات ازخود ختم ہو جائیں گے، کیونکہ تنازعات کی بنیاد ہی حقوق کا دعویٰ ہے۔ جب حق ہی نہ رہا تو جھگڑا کیسا۔ پھر جب آپ کسی بیوی کے پاس جائیں گے تو اس احساس سے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے لیے اس کے پاس جانا ضروری نہیں تھا، اسے آپ کے آنے سے خوشی ہو گی اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی اور انھیں یہ جان کر آپ کے نہ آنے سے غم بھی نہیں ہو گا کہ آپ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی اجازت سے کر رہے ہیں اور آپ اپنی بیویوں کو جتنا وقت یا جتنی توجہ دیں گے، سب اسی پر خوش رہیں گی اور شکر گزار ہوں گی۔ 4۔ واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان رعایتوں کے باوجود آپ نے ان سے فائدہ اٹھایا نہ اپنا نفس ہبہ کرنے والی کسی خاتون سے آپ نے نکاح کیا، نہ کسی بیوی کی باری ختم کی، صرف سودہ رضی اللہ عنھا نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنھا کو دی تو آپ نے اس کی اجازت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری تمام بیویوں کے پاس باری باری جاتے تھے۔ آپ اس کا کس قدر اہتمام کرتے تھے وہ ان احادیث سے ظاہر ہے : (1) معاذہ عدویہ نے عائشہ رضی اللہ عنھا سے بیان کیا کہ اس آیت : ﴿ تُرْجِيْ مَنْ تَشَآءُ مِنْهُنَّ وَ تُـْٔوِيْ اِلَيْكَ مَنْ تَشَآءُ﴾ (ان میں سے جسے تو چاہے مؤخر کر دے اور جسے چاہے اپنے پاس جگہ دے دے) کے نازل ہونے کے بعد بھی جب آپ ہم میں سے کسی عورت کی باری کے دن میں ہوتے تو ہم سے اجازت مانگتے۔ [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ترجي من تشاء منھن....﴾: ۴۷۸۹ ] فتح الباری میں ہے، یعنی آپ جس بیوی کی باری کے دن میں ہوتے دوسری کے پاس جانا چاہتے تو اس سے اجازت مانگتے۔ (2) عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر پر جانا چاہتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے، پھر جس کا قرعہ نکلتا اسے ساتھ لے جاتے اور ہر بیوی کے پاس باری باری ایک دن رات رہتے، سوائے سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنھا کے کہ اس نے اپنی باری عائشہ رضی اللہ عنھا کے لیے ہبہ کر دی تھی، اس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشی حاصل کرنا چاہتی تھیں۔‘‘ [ بخاري، الھبۃ، باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا....: ۲۵۹۳ ] (3) عائشہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں : ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی وجہ سے) بوجھل ہو گئے اور آپ کی بیماری سخت ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری بیویوں سے بیماری کے ایام میرے گھر میں گزارنے کی اجازت مانگی تو انھوں نے آپ کو اجازت دے دی۔‘‘ [ بخاري، الھبۃ، باب ہبۃ الرجل لامرأتہ والمرأۃ لزوجھا : ۲۵۸۸ ] (4) عروہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عائشہ رضی اللہ عنھا نے ان سے کہا : ’’میرے بھانجے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس ٹھہرنے کی تقسیم میں کسی کو دوسری پر فضیلت نہیں دیتے تھے اور کم ہی کوئی دن ہو گا، ورنہ آپ ہر روز ہم سب کے پاس چکر لگاتے اور بغیر مساس (بغیر صحبت) ہر ایک کے پاس ٹھہرتے، یہاں تک کہ اس بیوی کے پاس پہنچتے جس کی باری ہوتی اور اس کے پاس رات گزارتے۔ سودہ رضی اللہ عنھا جب عمر رسیدہ ہو گئیں اور انھیں اندیشہ ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے علیحدگی اختیار کریں گے تو انھوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! میں نے اپنی باری عائشہ کو دی۔‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان سے قبول کر لیا۔‘‘ فرماتی ہیں : ’’ہم کہا کرتی تھیں کہ اس اور اس جیسی عورتوں ہی کے بارے میں یہ آیت اتری ہے : ﴿ وَ اِنِ امْرَاَةٌ خَافَتْ مِنْۢ بَعْلِهَا نُشُوْزًا اَوْ اِعْرَاضًا فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا اَنْ يُّصْلِحَا بَيْنَهُمَا صُلْحًا وَ الصُّلْحُ خَيْرٌ وَ اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ وَ اِنْ تُحْسِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِيْرًا ﴾ [ النساء : ۱۲۸ ] ’’اور اگر کوئی عورت اپنے خاوند سے کسی قسم کی زیادتی یا بے رخی سے ڈرے تو دونوں پر کوئی گناہ نہیں کہ آپس میں کسی طرح کی صلح کر لیں اور صلح بہتر ہے، اور تمام طبیعتوں میں حرص (حاضر) رکھی گئی ہے اور اگر تم نیکی کرو اور ڈرتے رہو تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو، ہمیشہ سے پورا باخبر ہے۔‘‘ [ أبو داؤد، النکاح، باب في القسم بین النساء : ۲۱۳۵، و قال الألباني حسن صحیح ] 5۔ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ مَا فِيْ قُلُوْبِكُمْ : اس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں سے بھی خطاب ہے اور تمام مومنوں سے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو ان کی عظیم ذمہ داریوں کے پیشِ نظر جو رعایتیں دی ہیں، تاکہ وہ گھریلو پریشانیوں سے آزاد رہ کر اطمینان سے دعوت کا فریضہ سر انجام دے سکیں، اس کے متعلق اگر تمھارے دلوں میں تسلیم و رضا ہو گی یا کراہت و انکار تو اللہ تعالیٰ سب کچھ جانتا ہے۔ اس لیے اہلِ ایمان کو جناب رسالت میں معمولی سوئے ظن سے بھی سخت اجتناب لازم ہے۔ 6۔ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِيْمًا حَلِيْمًا: یعنی اللہ تعالیٰ ہمیشہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے، مگر اس کے حلم کی بھی انتہا نہیں، اس لیے وہ تمھاری کسی خطا پر فوری گرفت نہیں کرتا، بلکہ تمھیں اپنی اصلاح کا موقع دیتا ہے۔