وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُم مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا
آپ مومنوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ ان پر اللہ کا بہت [٧٥] بڑا فضل ہے۔
وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِيْرًا : ’’ فَضْلًا ‘‘ کا معنی زائد ہونا، یعنی برتری ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿مَا هٰذَا اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُرِيْدُ اَنْ يَّتَفَضَّلَ عَلَيْكُمْ ﴾ [ المؤمنون : ۲۴ ] ’’یہ نہیں ہے مگر تمھارے جیسا ایک بشر، جو چاہتا ہے کہ تم پر برتری حاصل کرے۔‘‘ یعنی اے نبی! مومنوں کو بشارت دے دے کہ انھیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑی برتری عطا ہونے والی ہے۔ کفار کے مقابلے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو عطا ہونے والے فضل اور برتری کا ذکر اللہ تعالیٰ نے سورۂ شوریٰ میں فرمایا: ﴿ تَرَى الظّٰلِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا كَسَبُوْا وَ هُوَ وَاقِعٌۢ بِهِمْ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ لَهُمْ مَّا يَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ ﴾ [ الشورٰی : ۲۲ ] ’’تو ظالموں کو دیکھے گا کہ اس سے ڈرنے والے ہوں گے جو انھوں نے کمایا، حالانکہ وہ ان پر آکر رہنے والا ہے اور وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے وہ جنتوں کے باغوں میں ہوں گے، یہی بہت بڑا فضل ہے۔‘‘ اور دوسری امتوں کے اہلِ ایمان کے مقابلے میں اس امت کی برتری کا ذکر سورۂ بقرہ کی آیت (۱۴۳) اور آل عمران کی آیت (۱۱۰) کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ علاوہ ازیں ہماری امت کی دوسری امتوں پر برتری یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہم میں وہ پیغمبر مبعوث فرمایا جو سید ولد آدم ہے اور جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سب انبیاء سے افضل بنایا اسی طرح آپ کی امت کو دوسری امتوں پر فضیلت اور برتری عطا فرمائی۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّمَا بَقَاؤُكُمْ فِيْمَا سَلَفَ قَبْلَكُمْ مِنَ الْأُمَمِ كَمَا بَيْنَ صَلاَةِ الْعَصْرِ إِلٰي غُرُوْبِ الشَّمْسِ، أُوْتِيَ أَهْلُ التَّوْرَاةِ التَّوْرَاةَ فَعَمِلُوْا حَتّٰی إِذَا انْتَصَفَ النَّهَارُ عَجَزُوْا، فَأُعْطُوْا قِيْرَاطًا قِيْرَاطًا، ثُمَّ أُوْتِيَ أَهْلُ الْإِنْجِيْلِ الْإِنْجِيْلَ فَعَمِلُوْا إِلٰی صَلاَةِ الْعَصْرِ، ثُمَّ عَجَزُوْا، فَأُعْطُوْا قِيْرَاطًا قِيْرَاطًا، ثُمَّ أُوْتِيْنَا الْقُرْآنَ فَعَمِلْنَا إِلٰی غُرُوْبِ الشَّمْسِ، فَأُعْطِيْنَا قِيْرَاطَيْنِ قِيْرَاطَيْنِ، فَقَالَ أَهْلُ الْكِتَابَيْنِ أَيْ رَبَّنَا! أَعْطَيْتَ هٰؤُلاَءِ قِيْرَاطَيْنِ قِيْرَاطَيْنِ، وَأَعْطَيْتَنَا قِيْرَاطًا قِيْرَاطًا، وَ نَحْنُ كُنَّا أَكْثَرَ عَمَلاً؟ قَالَ قَالَ اللّٰهُ عَزَّ وَ جَلَّ هَلْ ظَلَمْتُكُمْ مِنْ أَجْرِكُمْ مِنْ شَيْءٍ؟ قَالُوْا لَا، قَالَ فَهُوَ فَضْلِيْ أُوْتِيْهِ مَنْ أَشَاءُ)) [بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب من أدرک رکعۃ من العصر قبل الغروب : ۵۵۷ ] ’’تم سے پہلی قوموں کے مقابلے میں تمھارا عرصہ اتنا ہے جتنا عصر سے غروبِ آفتاب تک۔ اہل تورات کو تورات دی گئی، انھوں نے کام کیا، جب دوپہر ہوئی تو وہ تھک کر رہ گئے تو انھیں ایک ایک قیراط دیا گیا، پھر اہل انجیل کو انجیل دی گئی، انھوں نے عصر کی نماز تک کام کیا، پھر تھک کر رہ گئے، انھیں بھی ایک ایک قیراط دیا گیا۔ پھر ہمیں قرآن دیا گیا تو ہم نے سورج غروب ہونے تک کام کیا تو ہمیں دو دو قیراط دیے گئے، تو دونوں کتابوں والے کہنے لگے : ’’اے ہمارے رب! تو نے انھیں دو دو قیراط دیے اور ہمیں ایک ایک قیراط دیا، حالانکہ ہم نے زیادہ کام کیا؟‘‘ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’کیا میں نے تمھاری مزدوری میں کچھ کمی کی ہے؟‘‘ انھوں نے کہا : ’’نہیں!‘‘ فرمایا : ’’پھر یہ میرا فضل ہے، میں جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں۔‘‘