وَدَاعِيًا إِلَى اللَّهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا مُّنِيرًا
نیز اللہ کے حکم سے اس کی طرف بلانے والا اور روشن [٧٤] چراغ (بنا کر بھیجا ہے)
1۔ وَ دَاعِيًا اِلَى اللّٰهِ : یعنی آپ اللہ کی توحید اور اس کے احکام کی اطاعت کی طرف لوگوں کو دعوت دینے والے ہیں اور یہ دعوت اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے آپ کو اس کام پر مامور کیا گیا ہے۔ اب جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ آپ کی نہیں بلکہ آپ کو مامور کرنے والے کی مخالفت کرتا ہے۔ 2۔ وَ سِرَاجًا مُّنِيْرًا : قرآن مجید میں دو جگہ سورج کو ’’سراج‘‘ کہا گیا ہے، جیسا کہ آسمانوں کو اوپر تلے پیدا کرنے کے ذکر کے بعد فرمایا : ﴿ وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُوْرًا وَّ جَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا ﴾ [ نوح : ۱۶ ] ’’اور اس نے ان میں چاند کو نور بنایا اور سورج کو چراغ بنا دیا۔‘‘ اور دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ جَعَلْنَا سِرَاجًا وَّهَّاجًا﴾ [ النبا : ۱۳ ] ’’اور ہم نے ایک بہت روشن گرم چراغ بنایا۔‘‘ یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’سراج منیر‘‘ فرمایا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے کفر و شرک کی ظلمتوں سے نکال کر ایمان کے نور کی طرف لانے کا ذریعہ بنایا، جس طرح سورج کو رات کی تاریکی ختم کر کے روشنی کا ذریعہ بنایا۔ سراجِ منیر قرار دینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں چاند کے نور کے باوجود روشنی کے لیے آگ یا مشعلیں جلانے کی ضرورت باقی رہتی ہے، مگر جب آفتاب عالم تاب طلوع ہوتا ہے تو کسی چراغ کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد نہ کسی نبی کی پیروی باقی رہی، نہ قرآن و حدیث کے ہوتے ہوئے کسی امام، بزرگ یا پیر کی تقلید کی گنجائش ہے۔