يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا
اے نبی! ہم نے آپ کو گواہی [٧٢] دینے والا بشارت دینے والا اور ڈرانے والا [٧٣] بناکر بھیجا ہے۔
1۔ يٰاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا : ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ صفات بیان فرمائیں، جن سے وہ عظیم الشان مراتب معلوم ہوتے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو فائز فرمایا اور ان ذمہ داریوں پر روشنی پڑتی ہے جو رسول کی حیثیت سے آپ پر عائد ہوتی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہم نے آپ کو اتنے عالی مراتب عطا فرمائے ہیں کہ آپ کے مخالفین جتنے بہتان باندھ لیں اور جتنی زبان درازی کر لیں، آپ کا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اس لیے آپ اپنا فرضِ منصبی ادا کرتے رہیں اور ان کی باتوں کی پروا مت کریں۔ ان میں سب سے پہلی صفت ’’ شَاهِدًا ‘‘ ہے۔ یہ شہادت دو طرح سے ہے، ایک دنیا میں اس بات کی شہادت کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور سچا دین صرف اسلام ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ وَ الْمَلٰٓىِٕكَةُ وَ اُولُوا الْعِلْمِ قَآىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ (18) اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَامُ ﴾ [ آل عمران : ۱۸، ۱۹ ] ’’اللہ نے گواہی دی کہ بے شک حقیقت یہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی، اس حال میں کہ وہ انصاف پر قائم ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔ بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری دنیا کے سامنے اپنے قول اور عمل کے ساتھ اس بات کی شہادت دی۔ دوسری آخرت کو شہادت، یعنی قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کی شہادت دیں گے کہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے تمام پیغام امت کو پہنچا دیے تھے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿ فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍۭ بِشَهِيْدٍ وَّ جِئْنَا بِكَ عَلٰى هٰؤُلَآءِ شَهِيْدًا﴾ [ النساء : ۴۱ ] ’’پھر کیا حال ہو گا جب ہم ہر امت سے ایک گواہ لائیں گے اور تجھے ان لوگوں پر گواہ لائیں گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ﴾ [ البقرۃ : ۱۴۳ ] ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔‘‘ 2۔ بعض حضرات نے ’’ شَاهِدًا ‘‘ کے لفظ کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے تمام اعمال دیکھ رہے ہیں اور ہر جگہ حاضر و ناظر ہیں۔ ورنہ دیکھے بغیر شہادت کیسے دے سکتے ہیں؟ مگر یہ بات غلط ہے، کیونکہ انبیاء علیھم السلام کا کام بندوں کے اعمال پر شہادت دینا نہیں کہ وہ کیا کرتے رہے ہیں، بلکہ ان کا کام اس بات کی گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا : ﴿ يَوْمَ يَجْمَعُ اللّٰهُ الرُّسُلَ فَيَقُوْلُ مَا ذَا اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّكَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوْبِ ﴾ [ المائدۃ : ۱۰۹ ] ’’جس دن اللہ رسولوں کو جمع کرے گا، پھر کہے گا تمھیں کیا جواب دیا گیا؟ وہ کہیں گے ہمیں کچھ علم نہیں، بے شک تو ہی چھپی باتوں کو بہت خوب جاننے والا ہے۔‘‘ اسی طرح جب اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام سے پوچھیں گے کہ کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لینا؟ تو وہ عرض کریں گے : ﴿ وَ كُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِيْ كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيْبَ عَلَيْهِمْ وَ اَنْتَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيْدٌ ﴾ [ المائدۃ : ۱۱۷ ] ’’اور میں ان پر گواہ تھا جب تک ان میں رہا، پھر جب تو نے مجھے اٹھا لیا تو تو ہی ان پر نگران تھا اور تو ہر چیز پر گواہ ہے۔‘‘ یہ آیات اس بات کی صریح دلیل ہیں کہ انبیاء لوگوں کے اعمال پر گواہ نہیں ہوں گے، پھر وہ کس چیز کے گواہ ہوں گے؟ اللہ تعالیٰ نے خود اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ﴿ وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ يَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا ﴾ [ البقرۃ : ۱۴۳ ] ’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں سب سے بہتر امت بنایا، تاکہ تم لوگوں پر شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر شہادت دینے والا بنے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امت پر شہادت دیں گے اور آپ کی امت لوگوں پر شہادت دے گی۔ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو شہادت دینے کے لیے پوری امت کا حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے اور اگر امت کے لوگ صرف اس شہادت کے لیے بلائے جائیں گے کہ خالق کا پیغام اس کی مخلوق تک پہنچ گیا تو یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسی بات کی شہادت دیں گے۔ مزید دلائل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۴۳)اور سورۂ مائدہ (۱۱۷) کی تفسیر۔ 3۔ وَ مُبَشِّرًا وَّ نَذِيْرًا : یہ دوسری اور تیسری صفت ہے، یعنی آپ ایمان والوں کو یہ بشارت دینے والے ہیں کہ عنقریب ان سے مصائب کے بادل چھٹ جانے والے ہیں اور جلد ہی اللہ تعالیٰ انھیں اپنی فتح و نصرت سے سرفراز فرمائے گا اور مرنے کے بعد انھیں جنت کی ابدی نعمتیں اور اللہ کا دیدار میسر ہونے والا ہے۔ اسی طرح آپ حق کا انکار کرنے والوں کو دنیا میں ان کے برے انجام اور ذلت و خواری سے ڈرانے والے ہیں اور آخرت میں جہنم کے دائمی عذاب سے بھی۔