إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
یقیناً جو مرد اور جو عورتیں مسلمان ہیں، مومن ہیں، فرمانبردار ہیں، سچ بولنے والے ہیں، صبر کرنے والے ہیں، فروتنی کرنے والے ہیں، صدقہ دینے والے ہیں، روزہ رکھنے والے ہیں، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے اور اللہ کو بکثرت یاد کرنے والے ہیں، ان سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے بخشش [٥٤] اور بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔
1۔ اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ ....: امہات المومنین کو پاکیزہ اعمال و اخلاق کی ترغیب، برے اطوار سے اجتناب کی تلقین اور کتاب و حکمت کے سیکھنے اور سکھانے کی تاکید کے بعد ان دس صفاتِ کمال کا ذکر فرمایا جن پر کاربند ہونے والوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے بہت بڑی مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔ مگر ان صفات والوں کو عام الفاظ کے ساتھ ذکر فرمایا اور تمام مردوں اور عورتوں دونوں کو الگ الگ صراحت کے ساتھ ذکر فرمایا، تاکہ کوئی اسے امہات المومنین کے ساتھ خاص نہ سمجھ لے، نہ ان فضائل کو اور ان کے اجرو ثواب کو صرف مردوں کا حصہ سمجھ لے۔ 2۔ ام سلمہ رضی اللہ عنھا بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : ’’اے اللہ کے رسول! قرآن میں جس طرح مردوں کا ذکر ہوتا ہے ہم عورتوں کا نہیں ہوتا۔‘‘ تو اچانک ایک دن میں نے منبر پر آپ کی آواز سنی، میں نے دروازے کے قریب ہو کر کان لگایا تو آپ فرما رہے تھے : ’’اے لوگو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ﴿ اِنَّ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْقٰنِتِيْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ وَ الصّٰدِقِيْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ وَ الصّٰبِرِيْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ وَ الْخٰشِعِيْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ وَ الْمُتَصَدِّقِيْنَ وَ الْمُتَصَدِّقٰتِ وَ الصَّآىِٕمِيْنَ وَ الصّٰٓىِٕمٰتِ وَ الْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّ اَجْرًا عَظِيْمًا ﴾ [ الأحزاب : ۳۵ )) [ مسند أحمد : 6؍301، ح : ۲۶۵۷۵، و قال المحقق صحیح ] 3۔ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ : اسلام کا معنی انقیاد (تابع ہو جانا) ہے اور ایمان کا معنی تصدیق ہے۔ پھر ان کا استعمال تین طرح ہوتا ہے، کبھی دونوں ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہیں، جیسے فرمایا : ﴿ فَاَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيْهَا مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ (35) فَمَا وَجَدْنَا فِيْهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِّنَ الْمُسْلِمِيْنَ ﴾ [ الذاریات : ۳۵، ۳۶ ] ’’ سو ہم نے اس (بستی) میں ایمان والوں سے جو بھی تھا نکال لیا۔ تو ہم نے اس میں مسلمانوں کے ایک گھر کے سوا کوئی نہ پایا۔‘‘ کبھی الگ الگ معنوں میں استعمال ہوتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَ لٰكِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا ﴾ [ الحجرات : ۱۴] ’’بدویوں نے کہا ہم ایمان لے آئے، کہہ دے تم ایمان نہیں لائے اور لیکن یہ کہو کہ ہم مطیع ہو گئے۔‘‘ اور کبھی مسلم کا لفظ عام ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو اسلام کے ظاہری اعمال بجا لائے، عام اس سے کہ اس کے سچا ہونے کا یقین رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اور مومن کا لفظ خاص ہوتا ہے، یعنی وہ شخص جو ظاہری اعمال بجا لانے کے ساتھ دل سے بھی اللہ اور اس کے سچا ہونے کا یقین رکھتا ہو۔ ظاہر یہ ہے کہ اس آیت میں ’’ الْمُسْلِمِيْنَ ‘‘ سے مراد تمام مسلم ہیں، خواہ صرف ظاہر میں اعمال بجا لانے والے ہوں یا دل سے بھی یقین رکھنے والے ہوں۔ (ابن جَزیّ) 4۔ وَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ : چونکہ ’’ الْمُسْلِمِيْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ ‘‘ میں مخلص اور منافق دونوں آ سکتے تھے، اس لیے مومنین اور مومنات کا ذکر فرمایا، یعنی جو ظاہری انقیاد کے ساتھ دل میں بھی ایمان رکھتے ہیں، کیونکہ جب تک دل میں یقین نہ ہو ظاہر میں تابع ہونے کا کچھ فائدہ نہیں۔ 5۔ وَ الْقٰنِتِيْنَ وَ الْقٰنِتٰتِ : ہمیشہ کے لیے اطاعت کرنے والے۔ اسلام کے بعد ایمان کا مرتبہ ہے، ان دونوں کے نتیجے میں قنوت، یعنی اطاعت اور فرماں برداری پیدا ہوتی ہے۔ 6۔ وَ الصّٰدِقِيْنَ وَ الصّٰدِقٰتِ: اس کی تفصیل سورۂ توبہ کی آیت (۱۱۹) : ﴿ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِيْنَ ﴾ کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 7۔ وَ الصّٰبِرِيْنَ وَ الصّٰبِرٰتِ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۵ اور ۱۵۳)۔ 8۔ وَ الْخٰشِعِيْنَ وَ الْخٰشِعٰتِ ....: یعنی وہ تکبر اور غرور سے پاک ہیں، ہر وقت اللہ کے سامنے عاجز اور دل و زبان اور جسم و جان سے اس کے آگے جھکے رہتے ہیں، حق سامنے آنے پر اس سے نہ سر پھیرتے ہیں، نہ انکار کرتے ہیں۔ خشوع اور عاجزی کی تمام کیفیتیں نماز میں جمع ہیں، اس لیے خشوع کا اعلیٰ درجہ نماز میں خشوع ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (1) الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ ﴾ [ المؤمنون : ۱، ۲ ] ’’یقیناً کامیاب ہوگئے مومن۔ وہی جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔‘‘ ممکن ہے یہاں عام حالات میں خشوع کے ساتھ خاص طور پر یہ مراد ہو، کیونکہ اس کے بعد صدقے اور روزے کا ذکر ہے اور نماز، صدقہ اور روزہ تینوں اسلام کے بنیادی ارکان ہیں۔ خشوع، صدقہ اور صیام کے الفاظ میں فرض اور نفل دونوں شامل ہیں۔ 9۔ وَ الْحٰفِظِيْنَ فُرُوْجَهُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ : اس میں زنا سے اجتناب کے علاوہ ننگا ہونے سے اجتناب بھی شامل ہے اور ایسا لباس پہننے سے بھی جس سے جسم کا وہ حصہ نمایاں ہوتا ہو جسے چھپانا لازم ہے۔ دیکھیے سورۂ مومنون (۵ تا ۷) اور معارج (۲۹ تا ۳۱)۔ 10۔ وَ الذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّ الذّٰكِرٰتِ ....: ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے راستے میں چل رہے تھے تو ایک پہاڑ پر گزرے، جسے جُمدان کہا جاتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( سِيْرُوْا هٰذَا جُمْدَانُ سَبَقَ الْمُفَرَّدُوْنَ )) ’’چلتے رہو، یہ جُمدان ہے، ’’مفرد‘‘ لوگ (اپنے کام میں اکیلے رہ جانے والے) سبقت لے گئے۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مفرد لوگوں سے کیا مراد ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلذَّاكِرُوْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذَّاكِرَاتُ )) [ مسلم، الذکر و الدعاء، باب الحث علی ذکر اللّٰہ تعالٰی : ۲۶۷۶ ] ’’اللہ تعالیٰ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے مرد اور بہت زیادہ یاد کرنے والی عورتیں۔‘‘ ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( أَلاَ أُنَبِّئُكُمْ بِخَيْرِ أَعْمَالِكُمْ وَ أَزْكَاهَا عِنْدَ مَلِيْكِكُمْ وَأَرْفَعِهَا فِيْ دَرَجَاتِكُمْ وَ خَيْرٍ لَّكُمْ مِنْ إِنْفَاقِ الذَّهَبِ وَ الْوَرِقِ وَ خَيْرٍ لَّكُمْ مِنْ أَنْ تَلْقَوْا عَدُوَّكُمْ فَتَضْرِبُوْا أَعْنَاقَهُمْ وَ يَضْرِبُوْا أَعْنَاقَكُمْ؟ قَالُوْا بَلٰی قَالَ ذِكْرُ اللّٰهِ تَعَالٰی)) [ترمذي، الدعوات، باب منہ : ۳۳۷۷، و قال الألباني صحیح ] ’’کیا میں تمھیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمھارے اعمال میں سے سب سے بہتر ہے اور تمھارے مالک کے ہاں سب سے پاکیزہ ہے اور تمھارے درجات میں سب سے بلند ہے اور تمھارے لیے سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بہتر ہے اور اس سے بھی بہتر ہے کہ تم اپنے دشمن سے ملو، پھر وہ تمھاری گردنیں اڑائیں اور تم ان کی گردنیں اڑاؤ؟‘‘ صحابہ نے عرض کیا: ’’کیوں نہیں (یا رسول اللہ!)‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’وہ اللہ کا ذکر ہے۔‘‘ عبد اللہ بن بسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے کہا : ’’یا رسول اللہ! اسلام کے احکام مجھ پر بہت زیادہ ہو گئے ہیں، اس لیے آپ مجھے کوئی ایک چیز بتا دیں جسے میں مضبوطی سے پکڑ لوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ يَزَالُ لِسَانُكَ رَطْبًا مِنْ ذِكْرِ اللّٰهِ )) [ ترمذي، الدعوات، باب ما جاء في فضل الذکر : ۳۳۷۵، و قال الألباني صحیح ] ’’تیری زبان ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے ذکر سے تر رہے۔‘‘ یاد رہے زبانی ذکر ہی کافی نہیں، بلکہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ کو دل میں یاد رکھنا اور ہر وقت اس بات کا احساس ضروری ہے کہ میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں آدمی اللہ کی نافرمانی سے بچتا ہے اور اگر نافرمانی کر بیٹھے تو اللہ کی یاد اسے اپنے رب کے ساتھ معاملہ درست کرنے پر مجبور کر دیتی ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے متقی بندوں کی صفت بیان فرمائی: ﴿ وَ الَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا۠ لِذُنُوْبِهِمْ وَ مَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ وَ لَمْ يُصِرُّوْا عَلٰى مَا فَعَلُوْا وَ هُمْ يَعْلَمُوْنَ ﴾ [ آل عمران : ۱۳۵ ] ’’اور وہ لوگ کہ جب کوئی بے حیائی کرتے ہیں، یا اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں تو اللہ کو یاد کرتے ہیں، پس اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں اور اللہ کے سوا اور کون گناہ بخشتا ہے؟ اور انھوں نے جو کیا اس پر اصرار نہیں کرتے جب کہ وہ جانتے ہوں۔‘‘ اور قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے عرش کا سایہ حاصل کرنے والے سات خوش نصیبوں میں سے ایک وہ ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَ رَجُلٌ ذَكَرَ اللّٰهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ )) [ بخاري، الأذان، باب من جلس في المسجد....: ۶۶۰ ] ’’وہ آدمی جس نے اللہ کو خلوت میں یاد کیا تو اس کی آنکھیں بہ پڑیں۔‘‘ اللہ کی نافرمانی پر اصرار کے ساتھ محض زبان سے ذکر کو اللہ کی یاد کہنا ’’یاد‘‘ کے مفہوم سے غفلت کا نتیجہ ہے۔