وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ ۖ وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ ۚ إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا
اور اپنے گھروں میں قرار [٤٧] پکڑے رہو، پہلے دور جاہلیت [٤٨] کی طرح اپنی زیب و زینت کی نمائش [٤٩] نہ کرتی پھرو، نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو ' اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اے اہل بیت [٥٠] (نبی) اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی [٥١] کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے
1۔ وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ : ’’ قَرْنَ ‘‘ باب ’’قَرَّ يَقَرُّ قَرَارًا‘‘ (سمع) (کسی جگہ ٹھہرنا) سے جمع مؤنث امر حاضر کا صیغہ ہے، جو اصل میں ’’اِقْرَرْنَ‘‘ تھا۔ پہلی راء کو تخفیف کے لیے حذف کر دیا اور اس کا فتحہ قاف کو دے دیا، ہمزہ وصلی کی ضرورت نہ رہی، اس لیے اسے حذف کر دیا گیا، جیسا کہ ’’ظَلِلْتَ‘‘ کو پہلا لام حذف کر کے ’’ظَلْتَ‘‘ کر دیا جاتا ہے۔ بعض مفسرین نے اسے ’’وَقَرَ يَقِرُ وَقَارًا‘‘ (ض) سے مشتق قرار دیا ہے، مگر یہ صرف اس قراء ت کی صورت میں ہو سکتا ہے جس میں ’’ قَرْنَ ‘‘ کو قاف کے کسرہ کے ساتھ ’’قِرْنَ‘‘ پڑھا گیا ہے۔ اس صورت میں یہ ’’وَعَدَ يَعِدُ‘‘ میں سے ’’عِدْنَ‘‘ کے وزن پر ہو گا۔ قاف کے فتحہ کی صورت میں اسے ’’وَقَارٌ‘‘ سے مشتق قرار دینا مشکل ہے۔ اس آیت میں ازواج مطہرات کو گھروں کے اندر ٹھہرے رہنے کا حکم دیا، کیونکہ اس میں ان کی زیادہ حفاظت اور سلامتی پائی جاتی ہے۔ یہی حکم دوسری عورتوں کے لیے بھی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ((اَلْمَرْأَةُ عَوْرَةٌ وَ إِنَّهَا إِذَا خَرَجَتِ اسْتَشْرَفَهَا الشَّيْطَانُ وَ إِنَّهَا لَا تَكُوْنُ أَقْرَبَ إِلَی اللّٰهِ مِنْهَا فِيْ قَعْرِ بَيْتِهَا )) [طبراني في الأوسط :3؍189، ح : ۲۸۹۰، عن ابن عمر رضی اللّٰہ عنھما ۔ سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ :6؍187، ح : ۲۶۸۸ ] ’’عورت پردے کی چیز ہے، وہ جب نکلتی ہے تو شیطان اسے گردن اٹھا کر دیکھتا ہے اور وہ اللہ کے اس سے زیادہ کبھی قریب نہیں ہوتی جس قدر وہ اپنے گھر کے اندر (رہ کر قریب) ہوتی ہے۔‘‘ 2۔ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْاُوْلٰى: ’’ تَبَرُّجَ ‘‘ کا معنی ہے عورت کا غیر محرم مردوں کے سامنے اپنی اس زینت کا اظہار کرنا جسے چھپانا واجب ہے، یعنی اسلام سے پہلے جاہلیت کے دور میں عورتیں جس طرح بن سنور کر اور زینت لگا کر مردوں کے سامنے آتی تھیں تم ایسا مت کرو۔ یہاں ’’ الْاُوْلٰى ‘‘ کا لفظ احتراز کے لیے نہیں بلکہ جاہلیت جہلا کی طرح یا تو ایک محاورہ ہے، یا اسلام سے پہلے کی حالت کے اعتبار سے ’’ الْاُوْلٰى ‘‘ فرما دیا ہے۔ جاہلیت میں رواج تھا کہ عورتیں بناؤ سنگار کر کے بے پردہ باہر نکلا کرتی تھیں۔ افسوس! اب یہی رواج ثقافت اور دوسرے خوش نما ناموں سے مسلمانوں میں رائج ہو گیا ہے۔ اس جملے سے معلوم ہوا کہ عورت زینت چھپا کر ضرورت کے لیے گھر سے نکل سکتی ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ حجاب کا حکم نازل ہونے کے بعد سودہ رضی اللہ عنھا اپنی حاجت کے لیے نکلیں، وہ جسیم عورت تھیں، پہچاننے والے پر مخفی نہیں رہتی تھیں۔ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انھیں دیکھا تو کہا : ’’اے سودہ! اللہ کی قسم! تم ہم پر مخفی نہیں رہتیں، اس لیے دیکھا کرو کیسے نکلتی ہو؟‘‘ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ وہ واپس پلٹ آئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں تھے، آپ شام کا کھانا کھا رہے تھے، آپ کے ہاتھ میں گوشت کی بوٹی تھی کہ انھوں (سودہ رضی اللہ عنھا ) نے آ کر کہا : ’’اے اللہ کے رسول! میں اپنی کسی ضرورت کے لیے نکلی تو عمر( رضی اللہ عنہ ) نے مجھے ایسے ایسے کہا۔‘‘ فرماتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اسی حال میں آپ پر وحی فرمائی کہ وہ بوٹی آپ کے ہاتھ میں تھی، آپ نے رکھی نہ تھی، آپ نے فرمایا : (( إِنَّهُ قَدْ أُذِنَ لَكُنَّ أَنْ تَخْرُجْنَ لِحَاجَتِكُنَّ )) [ بخاري، التفسیر، باب قولہ : ﴿ لا تدخلوا بیوت النبي....﴾ : ۴۷۹۵ ] ’’تم عورتوں کو اجازت دے دی گئی ہے کہ اپنی حاجت کے لیے باہر نکلو۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ عورتوں کے باہر نکلنے پر مکمل پابندی لگانے کے خواہش مند تھے، مگر اللہ تعالیٰ نے ضرورت کے لیے انھیں نکلنے کی اجازت عطا فرمائی۔ مگر اس کے لیے پردے کی پابندی لگائی، حتیٰ کہ وہ نماز باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد میں جانا چاہیں تو بھی حکم ہے کہ زینت کا اظہار کرتی ہوئی نہ نکلیں اور خوشبو لگائے ہوئے نہ ہوں۔ 3۔ وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتِيْنَ الزَّكٰوةَ ....: ازواج مطہرات کے لیے عار بننے والی چیزوں سے اجتناب کے حکم کے بعد انھیں فرائض کی ادائیگی کا حکم دیا۔ چنانچہ بدنی عبادتوں میں سب سے افضل عبادت نماز کا اور مالی عبادتوں میں سب سے افضل عبادت زکوٰۃ کا حکم دیا۔ اس کے بعد جامع حکم دیا کہ اللہ اور اس کے رسول کی ہر بات کی اطاعت کریں۔ اس میں ازواج مطہرات کے لیے بشارت بھی ہے کہ ان پر خوش حالی کا وقت آنے والا ہے، جس میں وہ زکوٰۃ ادا کریں گی، چنانچہ خیبر کی فتح کے بعد تنگی کا وقت ختم ہو گیا، جیسا کہ پیچھے گزرا ہے، پھر خلفائے راشدین کے زمانے میں روم و شام، مصر اور فارس فتح ہوئے، تو امہات المومنین میں سے ہر ایک کا سالانہ وظیفہ بارہ ہزار درہم مقرر ہو گیا، جو تقریباً ایک ہزار دینار (ساڑھے چار کلو سونے) کے برابر تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت سے ان کی ایسی تربیت ہوئی تھی کہ وہ اسے اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتی تھیں۔ 4۔ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ ....: یعنی تمھیں لوچ دار آواز کے ساتھ بات کرنے اور جاہلیت کے اظہارِ زینت کی طرح زینت کے اظہار سے منع کرنے کا مقصد تمھاری تذلیل یا تم سے ناراضی کا اظہار نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم سے ظاہری اور باطنی ہر قسم کی گندگی دور کرے اور تمھیں ہر قسم کے عیب سے خوب اچھی طرح پاک صاف رکھے۔ واضح رہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ نعوذ باللہ پہلے ان میں ایسی کوئی گندگی موجود تھی، بلکہ قرآن مجید میں کسی چیز سے بچے رہنے کے لیے بھی اسے چھوڑ دینے کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، جیسا کہ یوسف علیہ السلام نے فرمایا : ﴿ اِنِّيْ تَرَكْتُ مِلَّةَ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ هُمْ بِالْاٰخِرَةِ هُمْ كٰفِرُوْنَ ﴾ [ یوسف : ۳۷ ] ’’بے شک میں نے اس قوم کا دین چھوڑ دیا ہے جو اللہ پر ایمان نہیں لائے اور وہ آخرت کے ساتھ بھی کفر کرنے والے ہیں۔‘‘ 5۔ اَهْلَ الْبَيْتِ : اس سے پہلے ’’يَا‘‘ کا لفظ محذوف ہے، جس کی وجہ سے یہ منصوب ہے، یعنی ’’اے گھر والو!‘‘ اس آیت سے پہلی اور اس کے بعد والی آیات سے صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ پہلی آیات میں ’’ وَ قَرْنَ فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ‘‘ اور بعد والی آیات میں ’’ وَ اذْكُرْنَ مَا يُتْلٰى فِيْ بُيُوْتِكُنَّ ‘‘ صریح دلیل ہے کہ گھر والیاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ہیں۔ بعض لوگوں نے سیاق و سباق کی واضح شہادت کے باوجود صرف اس لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کو اہلِ بیت ماننے سے انکار کر دیا ہے کہ ’’ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ ‘‘ میں ضمیر’’كُمْ‘‘ مذکر استعمال ہوئی ہے، حالانکہ اہلِ عرب خواتین سے خطاب کے وقت ضمیر’’كُمْ‘‘ عام استعمال کرتے ہیں، بلکہ قرآن مجید میں ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کو ان کے اہلِ بیت کہا گیا ہے اور ان سے ضمیر ’’كُمْ‘‘ کے ساتھ خطاب کیا گیا ہے۔ چنانچہ جب فرشتوں نے انھیں بیٹے اور پوتے کی بشارت دی اور انھوں نے اس بڑھاپے میں اولاد ہونے پر تعجب کا اظہار کیا تو فرشتوں نے ان سے کہا : ﴿ اَتَعْجَبِيْنَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ رَحْمَتُ اللّٰهِ وَ بَرَكٰتُهٗ عَلَيْكُمْ اَهْلَ الْبَيْتِ ﴾ [ ہود : ۷۳ ] ’’کیا تو اللہ کے حکم سے تعجب کرتی ہے؟ اللہ کی رحمت اور اس کی برکتیں ہوں تم پر اے گھر والو!‘‘ یہ آیت صریح نص ہے کہ بیوی اہلِ بیت ہوتی ہے اور عورت کو ضمیر ’’كُمْ‘‘ کے ساتھ خطاب کیا جاتا ہے۔ مشہور اسلامی شاعر عمر بن ابی ربیعہ نے کہا ہے: فَإِنْ شِئْتُ حَرَّمْتُ النِّسَاءَ سِوَاكُمْ وَ إِنْ شِئْتُ لَمْ أَطْعَمْ نُقَاخًا وَلَا بَرْدًا صحیح احادیث بھی اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت ہیں۔ چنانچہ جب ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگائی گئی تو ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : (( يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِيْنَ! مَنْ يَّعْذِرُنِيْ مِنْ رَجُلٍ قَدْ بَلَغَنِيْ أَذَاهُ فِيْ أَهْلِ بَيْتِيْ؟ )) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿ لو لا إذ سمعتموہ....﴾ : ۴۷۵۰ ] ’’اے مسلمانوں کی جماعت! ایک ایسے شخص کے بارے میں کون میری مدد کرتا ہے جس کی اذیت رسانی اب میرے اہلِ بیت (یعنی میرے گھر والوں) تک پہنچ گئی ہے؟‘‘ اگرچہ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اہلِ بیت سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ہیں، مگر احادیث سے یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنھم کو بھی اہلِ بیت میں شمار فرمایا ہے۔ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے انھیں اپنے اہلِ بیت میں شامل کروایا ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ربیب عمر بن ابی سلمہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : (( نَزَلَتْ هٰذِهِ الْآيَةُ عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ : ﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ﴾ [الأحزاب : ۳۳] فِيْ بَيْتِ أُمِّ سَلَمَةَ فَدَعَا النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاطِمَةَ وَحَسَنًا وَحُسَيْنًا فَجَلَّلَهُمْ بِكِسَاءٍ وَعَلِيٌّ خَلْفَ ظَهْرِهِ فَجَلَّلَهُ بِكِسَاءٍ ثُمَّ قَالَ اَللّٰهُمَّ هَؤُلاَءِ أَهْلُ بَيْتِيْ فَأَذْهِبْ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَ طَهِّرْهُمْ تَطْهِيْرًا قَالَتْ أُمُّ سَلَمَةَ وَ أَنَا مَعَهُمْ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ ، أَنْتِ عَلٰی مَكَانِكِ وَ أَنْتِ إِلٰی خَيْرٍ )) [ترمذي، المناقب، باب في مناقب أھل بیت النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم : ۳۷۸۷، و قال الألباني صحیح ] ’’جب یہ آیت : ﴿ اِنَّمَا يُرِيْدُ اللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيْرًا ﴾ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ام سلمہ رضی اللہ عنھا کے گھر میں اتری تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ، حسن اور حسین کو بلایا اور انھیں ایک چادر کے اندر کر لیا اور علی رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیٹھ کے پیچھے تھے، تو انھیں ایک چادر کے اندر کر لیا، پھر کہا : ’’اے اللہ! یہ میرے اہل بیت (گھر والے) ہیں، سو ان سے گندگی دور کر دے اور انھیں پاک کر دے، خوب پاک کرنا۔‘‘ ام سلمہ رضی اللہ عنھا نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول! کیا میں بھی ان کے ساتھ ہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تو اپنی جگہ پر ہے اور تو بھلائی کی طرف ہے۔‘‘ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنھم کو دعا کر کے اہلِ بیت میں شامل کروایا اور ان کے لیے گندگی دور کرنے اور انھیں پاک کرنے کی دعا فرمائی۔ یہ آیت اس سے پہلے اتر چکی تھی، جس سے صاف ظاہر ہے کہ اس سے پہلے آیت سے مراد صرف ازواج مطہرات تھیں۔ رہا ام سلمہ رضی اللہ عنھا کا سوال اور آپ کا انھیں جواب، تو بعض حضرات نے اس سے یہ بات نکالنے کی کوشش کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اہلِ بیت میں شامل نہیں فرمایا، حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں اطمینان دلایا کہ تمھیں یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں، کیونکہ تم پہلے ہی اس مقام پر ہو اور خیر پر ہو۔ ان لوگوں پر تعجب ہے جو آیت کے اصل مصداق کو اہلِ بیت ماننے کے لیے تیار نہیں اور جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے اہلِ بیت میں شامل کیا گیا، صرف ان کے اہلِ بیت ہونے پر اصرار کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ سمجھ عطا فرمائے۔