سورة الأحزاب - آیت 20

يَحْسَبُونَ الْأَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوا ۖ وَإِن يَأْتِ الْأَحْزَابُ يَوَدُّوا لَوْ أَنَّهُم بَادُونَ فِي الْأَعْرَابِ يَسْأَلُونَ عَنْ أَنبَائِكُمْ ۖ وَلَوْ كَانُوا فِيكُم مَّا قَاتَلُوا إِلَّا قَلِيلًا

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

وہ یہی سمجھ رہے ہیں کہ ابھی لشکر گئے نہیں [٢٨] اور اگر یہ لشکر چڑھ آئیں تو وہ یہ تمنا کریں گے کہ کاش وہ دیہاتیوں میں رہنے والے ہوتے اور بس تمہارے حالات ہی پوچھ لیا کرتے اور اگر وہ تم میں موجود بھی ہوتے تو (دشمن سے) لڑائی میں کم ہی حصہ لیتے۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

يَحْسَبُوْنَ الْاَحْزَابَ لَمْ يَذْهَبُوْا ....: ’’ بَادُوْنَ ‘‘ ’’بَدَا يَبْدَوْ‘‘ سے اسم فاعل کی جمع ہے، یہاں مراد ’’خَارِجُوْنَ إِلَي الْبَدْوِ‘‘ ہے، یعنی بدویوں کی طرف نکلنے والے۔ ابن کثیر میں ہے : ’’یعنی ان کی بزدلی اور ڈرپو کی کا یہ عالم ہے کہ اب تک انھیں اس بات کا یقین نہیں ہوا کہ لشکر کفار لوٹ گیا ہے، انھیں خطرہ ہے کہ وہ پھر کہیں نہ آ پڑے۔ مشرکین کے لشکروں کو دیکھتے ہی ان کے چھکے چھوٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں، کاش کہ ہم مسلمانوں کے ساتھ اس شہر ہی میں نہ ہوتے، بلکہ گنواروں کے ساتھ کسی اجاڑ گاؤں یا کسی دور دراز کے جنگل میں ہوتے، کسی آتے جاتے سے پوچھ لیتے کہ کہو بھئی، لڑائی کا کیا حشر ہوا؟ اللہ فرماتا ہے کہ یہ اگر تمھارے ساتھ بھی ہوں تو بے کار ہے۔ ان کے دل مردہ ہیں، نامردی کے گھن نے انھیں کھوکھلا کر رکھا ہے۔ یہ کیا لڑیں گے اور کون سی بہادری دکھائیں گے؟‘‘