وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا
جبکہ منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں روگ تھا یہ کہہ رہے تھے کہ : اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدہ [١٥] کیا تھا وہ بس دھوکا ہی تھا
1۔ وَ اِذْ يَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِيْنَ …:’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا ‘‘ سے لے کر آیت (۲۷) تک کی آیات غزوۂ احزاب اور غزوۂ بنو قریظہ کے بعد نازل ہوئیں۔ ان میں دونوں جنگوں کا تذکرہ ہوا ہے۔ پچھلی آیت تک ایمان والوں کے خوف، آزمائش اور سخت جھنجوڑے جانے کا ذکر ہوا ہے، جس کے دوران ان کے دلوں میں طرح طرح کے گمان بھی آتے رہے، مگر ان کی زبان پر کفر یا مایوسی کا کوئی لفظ نہیں آیا۔ اب اس دوران منافقین کے رویے اور ان کی منافقانہ باتوں کا ذکر ہوتا ہے، جن سے ان کا نفاق کھل کر سب کے سامنے آگیا۔ 2۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے منافقین کے ساتھ ان لوگوں کا ذکر فرمایا ہے جن کے دلوں میں بیماری ہے۔ سوال یہ ہے کہ منافقین کے دلوں میں بھی تو بیماری ہے، جیسا کہ سورۂ بقرہ میں فرمایا : ﴿ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ﴾ [ البقرۃ : ۱۰ ] ’’ان کے دلوں میں ایک بیماری ہے۔‘‘ تو یہاں منافقین کے بعد ’’ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ‘‘ سے کون لوگ مراد ہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ یہاں منافقین سے مراد وہ لوگ ہیں جو پکے منافق تھے، جیسے عبداللہ بن ابی اور اس کے ساتھی۔ ان کے متعلق جو سورۂ بقرہ میں ’’ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ‘‘ فرمایا ہے، وہاں ’’ مَرَضٌ ‘‘ کی ’’تنوین‘‘ تعظیم و تہویل کے لیے ہے، اس لیے وہاں مراد یہ ہے کہ ان کے دلوں میں ایک بھاری بیماری ہے۔ اس آیت میں ’’ الَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ ‘‘ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ابھی نفاق میں پختہ نہیں ہوئے تھے، بلکہ ان کے دلوں میں شک و شبہ اور نفاق کی کچھ بیماری تھی۔ گویا یہاں ’’ مَرَضٌ ‘‘ میں تنوین تنکیر و تبعیض کے لیے ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں فرمایا ہے : ﴿ وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَّعْبُدُ اللّٰهَ عَلٰى حَرْفٍ ﴾ [ الحج : ۱۱ ] ’’اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کی عبادت ایک کنارے پر کرتا ہے۔‘‘ غرض اس موقع پر صرف پکے ایمان والے ثابت قدم رہے۔ رہے منافقین یا ڈِھلمل یقین والے، تو ان سب کا نفاق کھل کر سامنے آ گیا۔ 3۔ مَا وَعَدَنَا اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ اِلَّا غُرُوْرًا : جنگ خندق کے دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو کئی بشارتیں دی تھیں۔ خندق کھودنے کے دوران ایک چٹان جو کھدائی میں رکاوٹ بن گئی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال ماری تو وہ تین ضربوں میں تین ٹکڑے ہو گئی اور ہر ضرب پر اس سے ایک چمک نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پہلی ضرب کے ساتھ مجھے کسریٰ کے شہر اور ان کے اردگرد کے شہر اور بہت سے شہر دکھائے گئے، جنھیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘ وہاں موجود صحابہ نے کہا : ’’یا رسول اللہ! دعا کیجیے اللہ تعالیٰ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا کرے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کر دی اور فرمایا : ’’پھر میں نے دوسری ضرب لگائی تو قیصر کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائی گئیں، یہاں تک کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ ! اللہ سے دعا کیجیے کہ اللہ ہمیں ان پر فتح عطا فرمائے، ان کے گھر ہمیں بطور غنیمت عطا فرمائے اور ان کے شہر ہمارے ہاتھوں برباد کرے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کر دی اور فرمایا : ’’پھر میں نے تیسری ضرب ماری تو حبشہ کے شہر اور ان کے اردگرد کی بستیاں میرے سامنے لائی گئیں، حتیٰ کہ میں نے انھیں اپنی آنکھوں سے دیکھا۔‘‘ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’حبشیوں کو اپنے حال پر رہنے دو جب تک وہ تمھیں تمھارے حال پر رہنے دیں اور ترکوں کو کچھ نہ کہو جب تک وہ تمھیں کچھ نہ کہیں۔‘‘ [ نسائي، الجہاد، باب غزوۃ الترک والحبشۃ : ۳۱۷۸، و قال الألباني حسن ] جب مدینہ کو کفار نے ہر طرف سے گھیر لیا اور یہودیوں کی عہدشکنی کی وجہ سے مدینہ کے اندر سے بھی ہر وقت حملے کا خطرہ پیدا ہو گیا، تو اس وقت مسلمانوں کے لیے مزید پریشانی کا باعث یہ بات ہوئی کہ منافقین اور کچے ایمان والے لوگوں نے ایسی باتیں کہنا شروع کر دیں جن سے لوگوں کے حوصلے ٹوٹ جائیں اور بددلی پھیل جائے، مثلاً یہ کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو ہمیں قیصرو کسریٰ کے شہر فتح ہونے کی بشارتیں سناتے تھے، جبکہ اب ہماری یہ حالت ہے کہ ہم قضائے حاجت کے لیے بھی باہر نہیں جا سکتے۔ معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے جو وعدے کیے تھے سب دھوکا تھے۔ دراصل منافقین کا خیال یہ تھا کہ بس ایمان کا دعویٰ کرنے کی دیر ہے، آسمان سے فرشتے اتریں گے اور انھیں فتح حاصل ہو جائے گی، انھیں انگلی تک نہیں ہلانا پڑے گی، حالانکہ ایمان کے بعد آزمائش تو اللہ تعالیٰ کی سنت ہے، تاکہ کھرے کھوٹے الگ الگ ہو جائیں۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’بعض منافق کہنے لگے، پیغمبر کہتاہے کہ میرا دین پہنچے گا مشرق مغرب، یہاں جائے ضرور (قضائے حاجت) کو نہیں نکل سکتے۔ مسلمان کو چاہیے اب بھی نا امیدی کے وقت بے ایمانی کی باتیں نہ بولے۔‘‘