يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اذْكُرُوا نِعْمَةَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ جَاءَتْكُمْ جُنُودٌ فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا وَجُنُودًا لَّمْ تَرَوْهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرًا
اے ایمان والو! اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جب (کفار کے) لشکر تم پر چڑھ آئے تھے تو ہم نے آندھی اور ایسے لشکر بھیج دیئے جو تمہیں [١٤] نظر نہ آتے تھے اور جو کچھ تم کر رہے تھے اللہ اسے خوب دیکھ رہا تھا۔
1۔ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَيْكُمْ....: سورت کے شروع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کے تقویٰ کا حکم دیا اور اس کا ہر حکم علی الاعلان سنا دینے اور کفار و منافقین کی پروا نہ کرتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور اس معاملے اور ہر کام میں اللہ تعالیٰ پر توکل کا حکم دیا۔ اب اللہ تعالیٰ کے تقویٰ اور اس پر توکل کی صورت میں اس کے کافی ہو جانے کی دلیل کے طور پر جنگِ احزاب میں مسلمانوں کو اپنی نصرت کی نعمت یاد دلائی، یہ جنگ مسلمانوں کو پیش آنے والی تمام جنگوں سے زیادہ خوف ناک تھی۔ اس میں بتایا ہے کہ جب اللہ کے فرماں بردار بندے صرف اللہ پر توکل کرتے ہیں تو وہ ایسے لشکروں کے ساتھ ان کی مدد کرتا ہے جو نظر بھی نہیں آتے۔ اس آیت میں ’’ يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا ‘‘ کے ساتھ مسلمانوں کو مخاطب فرمایا، معلوم ہوا کہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خطاب بھی تمام مسلمانوں کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر اس لیے ہے کہ جب نبی اس حکم کی تعمیل کا پابند ہے تو امت تو بدرجۂ اولیٰ اس کی تعمیل کی پابند ہو گی۔ (بقاعی) 2۔ ہمارے استاذ محمد عبدہ رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’یہ غزوۂ خندق کا ذکر ہے، جسے غزوۂ احزاب بھی کہا جاتا ہے، جو صحیح اور مشہور روایات کے مطابق شوال سن پانچ ہجری میں واقع ہوا۔ اس کی مختصر روداد یہ ہے کہ سن چار (۴) ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے یہودی قبیلہ بنو نضیر کو مدینہ کی سرزمین سے جلا وطن کر دیا تھا۔ اس کے کچھ اشراف (سرکردہ لوگ) مکہ گئے اور سرداران قریش سے ملاقات کر کے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتے رہے اور ان سے وعدہ کیا کہ اگر تم مدینہ پر حملہ کرو تو ہم تمھارا ساتھ دیں گے اور ہر طریقے سے تمھاری مدد کریں گے۔ جب قریش نے آمادگی کا اظہار کیا تو وہ نجد کے قبائل غطفان اور ہذیل وغیرہ کی طرف گئے اور انھیں بھی مدینہ پر حملے کے لیے اکسایا اور ہر ممکن طریقے سے امداد کرنے کا وعدہ کیا، یہاں تک کہ وہ بھی آمادہ ہو گئے۔ چنانچہ سن پانچ (۵) ہجری میں ایک طرف ابو سفیان کی سرکردگی میں قریش اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر اور دوسری طرف غطفان، ہذیل اور ان کے حلیف قبائل کا لشکر عیینہ بن حصن کی سرکردگی میں مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے پہنچ گئے اور جنوب اور مشرق سے مدینہ کا محاصرہ کر لیا۔ شمال کی طرف سے بنو نضیر اور بنو قینقاع کے وہ یہودی آئے جو مدینہ سے جلا وطن ہونے کے بعد خیبر اور وادی القریٰ میں آباد ہو گئے تھے۔ مجموعی طور پر ان سب کی تعداد دس ہزار تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات کا اندازہ کرکے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے سے ان سمتوں میں خندق کھدوائی اور عام مسلمانوں کے ساتھ خود بھی زمین کھودنے اور مٹی اٹھانے کا کام کرتے رہے۔ پیچھے یعنی مغرب کی سمت میں قبیلہ بنو قریظہ کے یہودی آباد تھے، جو مسلمانوں کے حلیف تھے، اس لیے مسلمان ان کی طرف سے بے فکر تھے، بلکہ انھوں نے اپنے بال بچے ان گڑھیوں میں بھیج دیے تھے جو ان کی جانب تھیں۔ لیکن بنو نضیر کا سردار حُیی بن اخطب ان کے پاس پہنچا اور انھیں حالات کی سازگاری کا واسطہ دے کر مسلمانوں سے بد عہدی پر آمادہ کر لیا۔ اس طرح گویا مدینہ منورہ ہر طرف سے مشرکوں اور یہودیوں کے نرغہ میں آ گیا۔ ان آیات میں انھی نازک حالات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر اپنا احسان و انعام بیان کیا ہے۔‘‘ (اشرف الحواشی) واضح رہے کہ قرآن مجید میں اس غزوہ کی تفصیل مؤرخین کے طریقے والی ترتیب پر نہیں، بلکہ نصیحت و عبرت کے اعتبار سے بیان ہوئی ہے، اس لیے واقع ہونے کے لحاظ سے کئی بعد والی باتیں پہلے بیان ہوئی ہیں اور کئی پہلے والی بعد میں۔ 3۔ غزوۂ احزاب میں کفار کی تعداد دس ہزار تھی، جب کہ مشہور قول کے مطابق مسلمان تین ہزار تھے۔ ایک قول یہ ہے کہ نو سو تھے۔ ابن حزم نے ’’جوامع السیرۃ ‘‘ میں فرمایا : ’’یہی بات صحیح ہے بلاشک اور پہلی وہم ہے۔‘‘ اس وقت مسلمانوں کی حالت کا نقشہ پیش کرنے کے لیے چند احادیث ذکر کی جاتی ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف نکلے تو مہاجرین و انصار سردی میں صبح صبح خندق کھود رہے تھے، ان کے پاس کوئی غلام نہ تھے، جو ان کے بجائے یہ کام سرانجام دیتے، تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی مشقت اور بھوک کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا : اَللّٰهُمَّ إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَهْ فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ ’’اے اللہ! زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے، سو تو انصار اور مہاجرین کو بخش دے۔‘‘ صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب میں کہا : نَحْنُ الَّذِيْنَ بَايَعُوْا مُحَمَّدًا عَلَي الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدَا ’’ہم وہ ہیں جنھوں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جہاد پر بیعت کی ہے، ہمیشہ کے لیے، جب تک ہمارے جسم میں جان باقی ہے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے جواب میں کہتے : اَللّٰهُمَّ إِنَّهُ لَا خَيْرَ إِلاَّ خَيْرُ الْآخِرَهْ فَبَارِكْ فِي الْأَنْصَارِ وَ الْمُهَاجِرَهْ ’’اے اللہ! خیر تو بس آخرت ہی کی خیر ہے، سو تو انصار و مہاجرین میں برکت فرما۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( يُؤْتَوْنَ بِمِلْءِ كَفَّيَّ مِنَ الشَّعِيْرِ فَيُصْنَعُ لَهُمْ بِإِهَالَةٍ سَنِخَةٍ تُوْضَعُ بَيْنَ يَدَيِ الْقَوْمِ ، وَالْقَوْمُ جِيَاعٌ ، وَهِيَ بَشِعَةٌ فِي الْحَلْقِ وَلَهَا رِيْحٌ مُنْتِنٌ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ۴۰۹۹، ۴۱۰۰ ] ’’ صحابہ کرام کو دو ہتھیلیاں بھرنے کے برابر جو دیے جاتے، ان کے لیے اس سے بدلی ہوئی بو والی چربی کے ساتھ کھانا تیار کیا جاتا، جو لوگوں کے سامنے رکھا جاتا، وہ بھوکے ہوتے، یہ کھانا ان کے گلوں میں اٹکتا جس میں ناگوار بو ہوتی۔‘‘ جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (( إِنَّا يَوْمَ الْخَنْدَقِ نَحْفِرُ فَعَرَضَتْ كُدْيَةٌ شَدِيْدَةٌ، فَجَاؤا النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ فَقَالُوْا هٰذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضَتْ فِي الْخَنْدَقِ، فَقَالَ أَنَا نَازِلٌ ثُمَّ قَامَ وَ بَطْنُهُ مَعْصُوْبٌ بِحَجَرٍ، وَ لَبِثْنَا ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ لاَ نَذُوْقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ الْمِعْوَلَ فَضَرَبَ فِي الْكُدْيَةِ، فَعَادَ كَثِيْبًا أَهْيَلَ أَوْ أَهْيَمَ، فَقُلْتُ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! ائْذَنْ لِيْ إِلَي الْبَيْتِ فَقُلْتُ لاِمْرَأَتِيْ رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ شَيْئًا، مَا كَانَ فِيْ ذٰلِكَ صَبْرٌ، فَعِنْدَكِ شَيْءٌ ؟ قَالَتْ عِنْدِيْ شَعِيْرٌ وَعَنَاقٌ، فَذَبَحْتُ الْعَنَاقَ وَطَحَنَتِ الشَّعِيْرَ، حَتّٰی جَعَلْنَا اللَّحْمَ فِي الْبُرْمَةِ، ثُمَّ جِئْتُ النَّبِيَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ وَالْعَجِيْنُ قَدِ انْكَسَرَ، وَالْبُرْمَةُ بَيْنَ الْأَثَافِيِّ قَدْ كَادَتْ أَنْ تَنْضَجَ فَقُلْتُ طُعَيِّمٌ لِيْ، فَقُمْ أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ! وَ رَجُلٌ أَوْ رَجُلاَنِ، قَالَ كَمْ هُوَ؟ فَذَكَرْتُ لَهُ، قَالَ كَثِيْرٌ طَيِّبٌ قَالَ قُلْ لَّهَا لاَ تَنْزِعِ الْبُرْمَةَ وَ لاَ الْخُبْزَ مِنَ التَّنُّوْرِ حَتّٰی آتِيَ فَقَالَ قُوْمُوْا، فَقَامَ الْمُهَاجِرُوْنَ وَ الْأَنْصَارُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَی امْرَأَتِهِ قَالَ وَيْحَكِ، جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ بِالْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَمَنْ مَعَهُمْ، قَالَتْ هَلْ سَأَلَكَ؟ قُلْتُ نَعَمْ، فَقَالَ ادْخُلُوْا وَلاَ تَضَاغَطُوْا فَجَعَلَ يَكْسِرُ الْخُبْزَ وَ يَجْعَلُ عَلَيْهِ اللَّحْمَ، وَيُخَمِّرُ الْبُرْمَةَ وَالتَّنُّوْرَ إِذَا أَخَذَ مِنْهُ، وَيُقَرِّبُ إِلٰی أَصْحَابِهِ ثُمَّ يَنْزِعُ، فَلَمْ يَزَلْ يَكْسِرُ الْخُبْزَ وَ يَغْرِفُ حَتّٰی شَبِعُوْا وَ بَقِيَ بَقِيَّةٌ قَالَ كُلِيْ هٰذَا وَ أَهْدِيْ، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْهُمْ مَجَاعَةٌ )) [بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ۴۱۰۱ ] ’’خندق کے دن ہم کھدائی کر رہے تھے، تو ایک سخت چٹان پیش آگئی۔ صحابہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور بتایا کہ یہ ایک سخت چٹان پیش آ گئی ہے۔ آپ نے فرمایا : ’’میں اترتا ہوں۔‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے، آپ کے پیٹ پر پتھر بندھا ہوا تھا۔ ہمیں تین دن گزر چکے تھے کہ ہم نے کوئی چیز چکھی تک نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کدال پکڑی، چٹان پر ماری تو وہ بھر بھرے تودے کی طرح ہو گئی۔ میں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! مجھے گھر جانے کی اجازت دیں۔‘‘ گھر جا کر میں نے بیوی سے کہا : ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ایسی حالت دیکھی ہے جس پر مجھ سے صبر نہیں ہو سکتا، تو تیرے پاس کچھ (کھانے کے لیے) ہے؟‘‘ اس نے کہا : ’’میرے پاس کچھ جو اور ایک بکری کی پٹھوری ہے۔‘‘ میں نے پٹھوری ذبح کی، اس نے جو پیسے اور ہم نے گوشت ہانڈی میں ڈال دیا۔ پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اتنے میں آٹا پکنے کے لیے تیار ہو گیا تھا اور ہانڈی چولھے پر پکنے کے قریب تھی۔ میں نے جا کر کہا : ’’تھوڑا سا کھانا ہے یا رسول اللہ! آپ اور آپ کے ساتھ ایک یا دو آدمی چلیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کتنا ہے؟‘‘ میں نے بتایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بہت ہے اور عمدہ ہے، بیوی سے کہو کہ میرے آنے تک نہ ہانڈی اتارے اور نہ تنور سے روٹی نکالے۔‘‘ آپ نے صحابہ سے فرمایا : ’’چلو۔‘‘ مہاجرین و انصار اٹھ کھڑے ہوئے۔ جابر رضی اللہ عنہ بیوی کے پاس گئے اور اسے کہنے لگے : ’’تجھ پر افسوس ہو! نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار اور جو بھی ان کے ساتھ ہیں انھیں لے کر آ رہے ہیں۔‘‘ اس نے کہا : ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تم سے پوچھا تھا؟‘‘ میں نے کہا : ’’ہاں!‘‘ خیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اندر آ جاؤ اور بھیڑ نہ کرو۔‘‘ آپ روٹی توڑ توڑ کر اس پر گوشت ڈالتے رہے۔ ہانڈی اور تنور سے سالن اور روٹی نکالنے کے بعد اسے ڈھانک دیتے اور صحابہ کے سامنے رکھ دیتے، پھر دوبارہ اسی طرح کرتے، آپ روٹی اور سالن ڈالتے رہے، یہاں تک کہ سب سیر ہو گئے اور کھانا بچ بھی گیا تو جابر کی بیوی سے فرمایا : ’’کھاؤ اور ہدیہ بھی دو، لوگوں کو بھوک آ پہنچی ہے۔‘‘ اس سے اگلی روایت میں جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اُدْعُ خَابِزَةً فَلْتَخْبِزْ مَعَكِ )) ’’اپنے ساتھ روٹیاں پکانے والی ایک اور عورت بلا لو۔‘‘ اور جابر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’وہ ایک ہزار تھے اور اللہ کی قسم! وہ کھا کر کھانا چھوڑ گئے، ہانڈی اسی طرح اُبل رہی تھی اور آٹا پکایا جا رہا تھا۔‘‘ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ۴۱۰۲ ] اس حدیث سے ابن حزم کی بات کی تائید ہوتی ہے کہ مسلمانوں کا لشکر تین ہزار نہیں بلکہ ایک ہزار کے قریب تھا۔ کفار کا خندق کو عبور کرنے کے لیے اتنا زبردست دباؤ تھا کہ مسلسل دفاع کی وجہ سے بعض اوقات آپ کی نماز بھی رہ جاتی اور آپ بعد میں ادا کرتے۔ جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’عمر رضی اللہ عنہ خندق کے موقع پر سورج غروب ہونے کے بعد آئے اور قریش کو برا بھلا کہتے ہوئے کہنے لگے : ’’اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! میں نماز کے قریب بھی نہیں جا سکا، حتیٰ کہ سورج ڈوبنے کے قریب پہنچ گیا۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَاللّٰهِ! مَا صَلَّيْتُهَا )) ’’اللہ کی قسم! میں نے بھی (عصر) نہیں پڑھی۔‘‘ تو ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطحان میں اترے، آپ نے اور ہم نے نماز کے لیے وضو کیا، تو آپ نے سورج غروب ہونے کے بعد عصر پڑھی، پھر مغرب پڑھی۔‘‘ [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ۴۱۱۲ ] عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احزاب (اتحادی لشکروں) کے خلاف بد دعا کی اور عرض کیا : (( اَللّٰهُمَّ مُنْزِلَ الْكِتَابِ! سَرِيْعَ الْحِسَابِ! اِهْزِمِ الْأَحْزَابَ، اَللّٰهُمَّ اهْزِمْهُمْ وَ زَلْزِلْهُمْ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ۴۱۱۵ ] ’’اے اللہ! اے کتاب نازل کرنے والے! بہت جلد حساب لینے والے! ان لشکروں کو شکست دے۔ اے اللہ! انھیں شکست دے اور انھیں سخت ہلا کر رکھ دے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ’’ جُنُوْدًا ‘‘ کا لفظ ارشاد فرمایا، حالانکہ اس کا واحد ’’جُنْدٌ‘‘ (لشکر) بھی بڑی تعداد کے اظہار کے لیے کافی تھا، لیکن کیونکہ یہ مختلف گروہ تھے، قریشِ مکہ، بنو غطفان وغیرہ، اس لیے ’’ جُنُوْدًا ‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا۔ 4۔ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيْحًا : الرحیق المختوم میں ہے : ’’مشرکین نے مدینہ کا محاصرہ ایک ماہ یا ایک ماہ کے قریب جاری رکھا تھا۔‘‘ آزمائش کے یہ ایام بہت سخت تھے۔ اس دوران مسلمانوں کی حالت اس کے بعد والی آیات میں بیان ہوئی ہے۔ کفار اس ارادے سے آئے تھے کہ مسلمانوں کا نام و نشان مٹا کر دم لیں گے اور جاتے ہی مردوں کو قتل کرکے عورتوں اور بچوں کو باندھ کر ساتھ لے آئیں گے۔ دس ہزار کے مقابلے میں ایک ہزار کی حیثیت ہی کیا تھی، مگر اللہ کی توفیق سے خندق کی وجہ سے وہ نہ مدینہ میں داخل ہو سکے، نہ انھیں کوئی کامیابی حاصل ہو سکی۔ وہ تو ایک ہلّے میں فتح کا منصوبہ لے کر آئے تھے، لیکن یہاں انھیں محاصرے کے لیے ایک ماہ رکنا پڑا، جس کے لیے وہ تیار ہو کر نہیں آئے تھے، نہ ہی ان کے پاس اتنے دن رہنے کے لیے درکار خور و نوش کی اور دوسری اشیاء موجود تھیں، اس لیے وہ ہر لمحے زیادہ سے زیادہ قوت سے حملہ آور ہو رہے تھے۔ مسلمانوں نے اگرچہ اپنی حد تک مدافعت کی، مگر ان کی تعداد، ان کی تیاری اور تدابیر ہرگز ایسی نہ تھیں کہ ان لشکروں کا مقابلہ کر سکتیں، لیکن ان کی حالتِ زار دیکھ کر اور ان کی فریاد سن کر اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم فرمایا اور غیب سے ان کی مدد فرمائی۔ یہ مدد دو چیزوں پر مشتمل تھی، ایک سخت آندھی اور دوسرے ایسے لشکر جو مسلمانوں کی نگاہ سے اوجھل تھے۔ ’’ رِيْحًا ‘‘ سے مراد وہ نہایت سرد اور سخت آندھی ہے جس سے کفار کے خیمے اکھڑ گئے، ان کے چولھوں کی آگ بجھ گئی، دیگیں الٹ گئیں، گھوڑے اور اونٹ رسیاں تڑوا کر بھاگ گئے اور ان پر ایسا شدید خوف طاری ہوا کہ وہ راتوں رات محاصرہ چھوڑ کر بھاگ گئے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَأُهْلِكَتْ عَادٌ بِالدَّبُوْرِ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق و ھي الأحزاب : ۴۱۰۵ ] ’’میری مدد صبا (مشرق سے آنے والی ہوا) کے ساتھ کی گئی اور عاد کو دبور (مغرب سے آنے والی ہوا) کے ساتھ ہلاک کیا گیا۔‘‘ 5۔ وَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا : ان لشکروں سے مراد فرشتوں کے لشکر ہیں، جنھوں نے کفار کے دلوں میں رعب ڈال کر ان کی ہمتیں توڑ دیں اور انھیں تتر بتر کر دیا۔ بعض حضرات نے لکھ دیا کہ غزوۂ خندق میں فرشتوں کا اترنا صحیح احادیث سے صراحت کے ساتھ ثابت نہیں، مگر یہ بات درست نہیں۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے مروی ہے، وہ فرماتی ہیں : (( لَمَّا رَجَعَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مِنَ الْخَنْدَقِ وَ وَضَعَ السِّلاَحَ وَاغْتَسَلَ، أَتَاهُ جِبْرِيْلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ فَقَالَ قَدْ وَضَعْتَ السِّلاَحَ وَاللّٰهِ! مَا وَضَعْنَاهُ، فَاخْرُجْ إِلَيْهِمْ قَالَ فَإِلٰی أَيْنَ؟ قَالَ هَاهُنَا، وَأَشَارَ إِلٰی بَنِيْ قُرَيْظَةَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِلَيْهِمْ )) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الأحزاب....: ۴۱۱۷ ] ’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق سے واپس آئے، ہتھیار اتار دیے اور غسل کیا تو جبریل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے : ’’آپ نے ہتھیار اتار دیے، اللہ کی قسم! ہم نے تو نہیں اتارے، سو آپ ان کی طرف نکلیے۔‘‘ آپ نے فرمایا : ’’کس طرف؟‘‘ انھوں نے بنو قریظہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ’’اس طرف۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف نکل پڑے۔‘‘ انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (( كَأَنِّيْ أَنْظُرُ إِلَی الْغُبَارِ سَاطِعًا فِيْ زُقَاقِ بَنِيْ غَنْمٍ مَوْكِبِ جِبْرِيْلَ حِيْنَ سَارَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ إِلٰی بَنِيْ قُرَيْظَةَ )) [ بخاري، المغازي، باب مرجع النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الأحزاب....: ۴۱۱۸ ]’’گویا کہ میں وہ غبار چمکتا ہوا دیکھ رہا ہوں جو جبریل علیہ السلام کی سواری سے بنو غنم کی گلی میں اٹھ رہا تھا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بنی قریظہ کی طرف گئے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات میں فرشتوں کے نزول اور اس کے جنود کی آمد کا ذکر قرآن میں کئی جگہ آیا ہے، جنگ حنین میں فرمایا : ﴿ ثُمَّ اَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلٰى رَسُوْلِهٖ وَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ وَ اَنْزَلَ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْهَا ﴾ [ التوبۃ : ۲۶ ] ’’پھر اللہ نے اپنی سکینت اپنے رسول پر اور ایمان والوں پر نازل فرمائی اور وہ لشکر اتارے جو تم نے نہیں دیکھے۔‘‘ یہ ’’جنود‘‘ فرشتے تھے، اس کی وضاحت غزوۂ بدر کے بیان میں سورۂ انفال میں آئی ہے، فرمایا : ﴿ اِذْ يُوْحِيْ رَبُّكَ اِلَى الْمَلٰٓىِٕكَةِ اَنِّيْ مَعَكُمْ فَثَبِّتُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا سَاُلْقِيْ فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا الرُّعْبَ فَاضْرِبُوْا فَوْقَ الْاَعْنَاقِ وَ اضْرِبُوْا مِنْهُمْ كُلَّ بَنَانٍ ﴾ [ الأنفال : ۱۲ ] ’’جب تیرا رب فرشتوں کی طرف وحی کر رہا تھا کہ میں تمھارے ساتھ ہوں، پس تم ان لوگوں کو جمائے رکھو جو ایمان لائے ہیں، عنقریب میں ان لوگوں کے دلوں میں جنھوں نے کفر کیا، رعب ڈال دوں گا۔ پس ان کی گردنوں کے اوپر ضرب لگاؤ اور ان کے ہر ہر پور پر ضرب لگاؤ۔‘‘ سورۂ توبہ میں غار کے اندر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد نظر نہ آنے والے انھی لشکروں کے ساتھ کرنے کا ذکر فرمایا : ﴿ اِلَّا تَنْصُرُوْهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللّٰهُ اِذْ اَخْرَجَهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا ثَانِيَ اثْنَيْنِ اِذْ هُمَا فِي الْغَارِ اِذْ يَقُوْلُ لِصَاحِبِهٖ لَا تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰهَ مَعَنَا فَاَنْزَلَ اللّٰهُ سَكِيْنَتَهٗ عَلَيْهِ وَ اَيَّدَهٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَ جَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا السُّفْلٰى وَ كَلِمَةُ اللّٰهِ هِيَ الْعُلْيَا وَ اللّٰهُ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ ﴾ [ التوبۃ : ۴۰ ] ’’اگر تم اس کی مدد نہ کرو تو بلاشبہ اللہ نے اس کی مدد کی، جب اسے ان لوگوں نے نکال دیا جنھوں نے کفر کیا، جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا غم نہ کر، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ تو اللہ نے اپنی سکینت اس پر اتار دی اور اسے ان لشکروں کے ساتھ قوت دی جو تم نے نہیں دیکھے اور ان لوگوں کی بات نیچی کر دی جنھوں نے کفر کیا اور اللہ کی بات ہی سب سے اونچی ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بھی کفار کے ساتھ مسلمانوں کی جنگوں میں بارہا فرشتوں کے نزول کا مشاہدہ ہوا ہے۔ ہمارے زمانے میں بھی ایسے کئی واقعات پیش آئے ہیں، شرط اعلائے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد اور اس پر استقامت ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انفال کی آیت (۱۰) کی تفسیر۔ 6۔ یہ جنگ کفار کی طرف سے مسلمانوں پر حملہ آور ہونے کی سب سے بڑی مہم تھی۔ اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ اس کے بعد اتنے لشکر کبھی جمع نہ کر سکے، نہ پھر انھیں مدینہ پر حملہ آور ہونے کی جرأت ہو سکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پیش گوئی پہلے ہی فرما دی۔ سلیمان بن صرد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب وہ لشکر آپ کو چھوڑ کر چلے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْآنَ نَغْزُوْهُمْ وَلاَ يَغْزُوْنَنَا، نَحْنُ نَسِيْرُ إِلَيْهِمْ )) [بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ۴۱۱۰ ] ’’اب ہم ان پر حملہ آور ہوں گے، وہ ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے، ہم ان کی طرف پیش قدمی کریں گے۔‘‘ 7۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی قسم کے فخر یا غرور کے بجائے ان لشکروں کی شکست کو ہمیشہ اپنے اکیلے رب کا کام قرار دیتے تھے۔ چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا کرتے تھے : (( لاَ إِلٰهَ إِلاَّ اللّٰهُ وَحْدَهُ، أَعَزَّ جُنْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ وَ غَلَبَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ، فَلاَ شَيْءَ بَعْدَهُ )) [ بخاري، المغازي، باب غزوۃ الخندق وھي الأحزاب : ۴۱۱۴ ] ’’اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ اکیلا ہے، اس نے اپنے لشکر کو غلبہ عطا فرمایا اور اپنے بندے کی مدد کی اور اکیلا تمام جماعتوں پر غالب آیا، سو اس کے بعد کوئی چیز نہیں۔‘‘ 8۔ وَ كَانَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْرًا : یعنی تم دشمن کے مقابلے میں جو کچھ کر رہے تھے، خندق کھود رہے تھے، بھوک پیاس اور خوف کی سختیاں برداشت کر رہے تھے اور استقامت اختیار کیے ہوئے تھے، اللہ تعالیٰ سب کچھ خوب دیکھ رہا تھا، سو اس نے تمھاری حالت دیکھ کر غیب سے تمھاری مدد فرمائی۔