وَإِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّينَ مِيثَاقَهُمْ وَمِنكَ وَمِن نُّوحٍ وَإِبْرَاهِيمَ وَمُوسَىٰ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ ۖ وَأَخَذْنَا مِنْهُم مِّيثَاقًا غَلِيظًا
اور اس عہد کو یاد رکھو جو ہم نے سب نبیوں سے لیا اور آپ سے بھی اور نوح، ابراہیم، موسیٰ اور عیسیٰ ابن مریم [١٢] سے بھی۔ ان سب سے ہم نے پختہ عہد لیا تھا۔
1۔ وَ اِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيْثَاقَهُمْ....: جاہلی معاشرے میں منہ بولے بیٹوں کی ان کے باپ کی طرف نسبت کرنے کے حکم، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متبنٰی زید رضی اللہ عنہ کی طلاق کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کے حکم پر عمل نہایت مشکل تھا، کیونکہ متبنٰی کا مسئلہ ان کے دینی عقیدے کی شکل اختیار کر چکا تھا اور ان کے رگ و پے میں رچ چکا تھا۔ پھر زینب رضی اللہ عنھا سے نکاح میں طرح طرح کی باتوں کا اندیشہ بھی تھا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عہد کی طرف توجہ دلائی جو اس نے تمام انبیاء سے اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا، جس میں ان پر یہ فریضہ عائد کیا کہ وہ ہر حال میں احکام پر عمل کرنے میں اور انھیں لوگوں تک پہنچانے میں کوئی تنگی محسوس نہیں کریں گے، نہ ہی اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور سے ڈریں گے۔ یہی بات اس سورۂ احزاب میں دوبارہ زیادہ تفصیل کے ساتھ آیت (۳۸، ۳۹) میں آ رہی ہے۔ انبیاء سے لیے جانے والے میثاق کا ذکر سورۂ احزاب کی اس آیت اور آیت (۳۸، ۳۹) کے علاوہ سورۂ آل عمران کی آیت (۸۱) اور سورۂ شوریٰ کی آیت (۱۳) میں بھی آیا ہے کہ ہر پیغمبر دوسرے تمام پیغمبروں کی تصدیق کرے گا، اپنے آپ پر اور لوگوں پر دین قائم کرے گا۔ دین میں تفرقے سے بچے گا۔ مشرکین پر گراں گزرنے کے باوجود اللہ کے دین کی دعوت میں کوتاہی نہیں کرے گا۔ 2۔ وَ مِنْكَ وَ مِنْ نُّوْحٍ ....: تمام انبیاء سے عہد لینے کے بعد پانچ پیغمبروں کا نام لے کر عہد لینے کی صراحت فرمائی۔ اس سے ان پیغمبروں کی شان کی عظمت ظاہر ہوتی ہے۔ ان میں سے ہر پیغمبر کی دعوت مدت دراز تک جاری رہی، پھر سب سے آخر میں آنے کے باوجود ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام پہلے ذکر فرمایا۔ آپ کے بعد باقی انبیاء کا نام ان کے تشریف لانے کی ترتیب کے ساتھ ذکر فرمایا۔ اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رفعت کا اظہار مقصود ہے اور یہ بھی کہ یہاں اس عہد کا ذکر خاص آپ کے لیے کیا گیا ہے۔ بعض مفسرین نے اس مقام پر لکھا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ دنیا میں سب سے آخر میں تشریف لائے، مگر وجود میں سب سے پہلے آئے، یعنی سب سے پہلے پیدا ہوئے، مگر یہ بات بالکل بے دلیل ہے۔ جس حدیث میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ آپ کب سے نبی ہیں ؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُنْتُ نَبِيًّا وَ آدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَ الْجَسَدِ )) [ مستدرک حاکم : 2؍608، ح : ۴۲۰۹ ] (میں اس وقت نبی تھا جب آدم علیہ السلام روح اور جسم کے درمیان تھے) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نبی طے ہونے کا بیان ہے۔ یہ معنی نہیں کہ آپ اس وقت پیدا ہو چکے تھے، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سب سے آخر میں پیدا ہونا سب کو معلوم ہے۔ 3۔ خصوصاً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کے احکام پہنچا دینے کی تاکید کا ذکر سورۂ مائدہ (۶۷) میں ہے اور اہلِ کتاب کو اس تاکید کا ذکر سورۂ آل عمران (۱۸۷) اور اعراف (۱۶۹) میں ہے۔ 4۔ اس مقام پر اس عہد کو یاد دلانے اور بالخصوص ’’ مِنْكَ ‘‘ کہنے سے مراد یہ ہے کہ آپ جو منہ بولے رشتوں کے معاملے میں جاہلیت کی رسم توڑنے سے جھجک رہے ہیں اور دشمنوں کے طعن و تشنیع سے ڈر رہے ہیں، تو آپ لوگوں کے طعن و تشنیع کی قطعاً پروا نہ کریں، دوسرے پیغمبروں کی طرح آپ سے بھی ہمارا پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی ہم آپ کو حکم دیں گے اسے بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے، لہٰذا جو فریضہ ہم نے آپ پر عائد کیا ہے اسے بلا تامل سرانجام دیں اور کفار و منافقین کی باتوں کی پروا مت کریں، ان سے آپ کو محفوظ رکھنا ہماری ذمہ داری ہے، فرمایا : ﴿ وَ اللّٰهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ ﴾ [المائدۃ : ۶۷ ] ’’اور اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا۔‘‘