النَّبِيُّ أَوْلَىٰ بِالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنفُسِهِمْ ۖ وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ ۗ وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَىٰ بِبَعْضٍ فِي كِتَابِ اللَّهِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُهَاجِرِينَ إِلَّا أَن تَفْعَلُوا إِلَىٰ أَوْلِيَائِكُم مَّعْرُوفًا ۚ كَانَ ذَٰلِكَ فِي الْكِتَابِ مَسْطُورًا
بلاشبہ نبی مومنوں کے لئے ان کی اپنی ذات سے بھی مقدم [٨] ہے اور آپ کی بیویاں مومنوں [٩] کی مائیں ہیں۔ اور کتاب اللہ کی رو سے مومنین اور مہاجرین کی نسبت، رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ (ترکہ کے) حقدار ہیں۔ البتہ اگر تم اپنے دوستوں سے کوئی [١٠] بھلائی کرنا چاہو (تو کرسکتے ہو) کتاب [١١] اللہ میں یہی کچھ لکھا ہوا ہے۔
1۔ اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ : پچھلی آیات میں منہ بولے بیٹوں کو ان کے باپوں کے نام کے ساتھ پکارنے کا حکم دیا، جس میں زید رضی اللہ عنہ کو زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہنا بھی شامل تھا، تو ضروری تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مسلمانوں سے تعلق واضح کیا جائے کہ باپ کی طرف نسبت کی تاکید کو دیکھ کر باپ کے تعلق کو نبی کے تعلق سے زیادہ اہم نہ سمجھ لینا، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمھارا جو تعلق ہے وہ باپ ہی نہیں تمھاری جان سے بھی زیادہ قرب کا ہے۔ 2۔ ’’ اَلنَّبِيُّ ‘‘ میں الف لام عہد کا ہے، اس لیے اس کا ترجمہ ’’یہ نبی‘‘ کیا گیا ہے۔ 3۔ ’’ اَوْلٰى ‘‘ کا معنی ’’أَقْرَبُ‘‘ (زیادہ قریب) بھی ہے اور ’’أَحَقُّ‘‘ (زیادہ حق رکھنے والا) بھی۔ یہاں اگر معنی ’’أَقْرَبُ‘‘ کیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ کسی قرابت دار کا قرب آدمی کے ساتھ اتنا نہیں جتنا قرب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایمان والوں کے ساتھ ہے۔ اس قرب سے مراد تعلق کا قرب ہے نہ کہ جسمانی قرب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت ہر مومن کے ساتھ اس کی جان سے بھی زیادہ قریب رہتے ہوں۔ بلکہ جس طرح تمام قرابت دار جہاں بھی ہوں ان کا آپس میں نسبی قرب اور تعلق قائم رہتا ہے، اسی طرح مومن جہاں بھی ہو اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت تمام رشتہ داروں حتیٰ کہ اس کی اپنی جان کی قرابت سے بھی زیادہ ہے۔ کیونکہ اس کے رشتہ دار، حتیٰ کہ اس کا نفس بھی بعض اوقات اسے نقصان پہنچا سکتا ہے، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مومنوں کے لیے خیر ہی خیر کا باعث ہیں۔ مگر یہاں ’’أَحَقُّ‘‘ کا معنی زیادہ مناسب ہے، بلکہ ’’أَقْرَبُ‘‘ سے مراد بھی ’’أَحَقُّ‘‘ (زیادہ حق دار) ہی ہے، یعنی اس قرب کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ حق رکھنے والے ہیں، کیونکہ اس کے متصل بعد رشتہ داروں کے بارے میں یہی لفظ فرمایا : ﴿ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ ﴾ یعنی رشتہ دار ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ آدمی پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حق اس کے تمام رشتہ داروں سے، حتیٰ کہ اس کی اپنی جان سے بھی زیادہ ہے۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ’’نبی نائب ہے اللہ کا، اپنی جان مال میں اپنا تصرف (اتنا) نہیں چلتا جتنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ اپنی جان دہکتی آگ میں ڈالنی روا نہیں اور نبی حکم کرے تو فرض ہے۔‘‘ (موضح) آگے اسی سورت میں فرمایا : ﴿ وَ مَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ وَ مَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ﴾ [ الأحزاب : ۳۶ ] ’’اور کبھی بھی نہ کسی مومن مرد کا حق ہے اور نہ کسی مومن عورت کا کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں کہ ان کے لیے ان کے معاملے میں اختیار ہو اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے تو یقیناً وہ گمراہ ہو گیا، واضح گمراہ ہونا۔‘‘ اپنی جان سے بھی زیادہ حق رکھنے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ اپنی ذات سے بھی بڑھ کر آپ کا حکم مانا جائے۔ ایک طرف دنیا جہاں کے کسی بھی شخص، حتیٰ کہ اپنی ذات کا تقاضا ہو، دوسری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہو تو آپ کے فرمان کو ترجیح دی جائے، اور یہ بات بھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی جان سے بھی زیادہ محبت کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! لاَ يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتّٰی أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَ وَلَدِهِ وَ النَّاسِ أَجْمَعِيْنَ )) [ بخاري، الإیمان، باب حب الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم من الإیمان : ۱۴، ۱۵، عن أبي ھریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوتا یہاں تک کہ میں اس کے لیے اس کے والد، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ ایک دفعہ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’یا رسول اللہ! آپ مجھے میری جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لاَ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ! حَتّٰی أَكُوْنَ أَحَبَّ إِلَيْكَ مِنْ نَفْسِكَ )) ’’نہیں (اے عمر!) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب تک میں تیرے لیے تیری جان سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔‘‘ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : (( فَإِنَّهُ الْآنَ، وَاللّٰهِ ! لَأَنْتَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِيْ )) ’’اب اللہ کی قسم! آپ مجھے میری جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( اَلْآنَ يَا عُمَرُ! )) ’’اب ، اے عمر!‘‘ [ بخاري، الأیمان والنذور، باب کیف کانت یمین النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ : ۶۶۳۲ ] امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت کی تفسیر میں یہ حدیث بیان فرمائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَا مِنْ مُؤْمِنٍ إِلاَّ وَأَنَا أَوْلٰی بِهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، اقْرَءُ وْا إِنْ شِئْتُمْ : ﴿ اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ [الأحزاب : ۶] فَأَيُّمَا مُؤْمِنٍ مَاتَ وَتَرَكَ مَالاً فَلْيَرِثْهُ عَصَبَتُهُ مَنْ كَانُوْا ، وَمَنْ تَرَكَ دَيْنًا أَوْ ضَيَاعًا فَلْيَأْتِنِيْ فَأَنَا مَوْلاَهُ )) [بخاري، الاستقراض، باب الصلاۃ علی من ترک دینا : ۲۳۹۹، عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ ] ’’جو بھی مومن ہے، میں دنیا اور آخرت میں اس پر زیادہ حق رکھنے والا، یا سب سے زیادہ اس سے قرب رکھنے والا ہوں، چاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ﴿ اَلنَّبِيُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ ﴾ تو جو مومن کوئی مال چھوڑ جائے اس کے وارث اس کے عصبہ ہوں گے، جو بھی ہوں اور جو کوئی قرض یا بال بچے چھوڑ جائے تو (اس کا وارث) میرے پاس آئے، میں اس کا ولی ہوں۔‘‘ 4۔ وَ اَزْوَاجُهٗ اُمَّهٰتُهُمْ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خصوصیت کی بنا پر جو اوپر ذکر ہوئی، ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کی اپنی منہ بولی مائیں تو کسی معنی میں بھی ان کی مائیں نہیں، مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں ان کی مائیں ہیں۔ مائیں ہونے سے مراد ان کی تعظیم و تکریم ہے اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ان سے نکاح جائز نہیں۔ دوسرے احکام مثلاً، خلوت، پردہ، ان کی اولاد سے شادی وغیرہ میں وہ ان کی ماں کی طرح نہیں۔ 5۔ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اَوْلٰى بِبَعْضٍ فِيْ كِتٰبِ اللّٰهِ ....: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہاجرین کی آبادکاری اور معاشی ضرورتوں کے لیے ایک مہاجر اور ایک انصاری کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا، اسے مؤاخات کہتے ہیں۔ یہ بھائی چارہ اتنا بڑھا کہ وہ ایک دوسرے کے وارث اور ولی قرار پا گئے۔ فوت ہونے پر مہاجر کی میراث رشتہ داروں کے بجائے اس کے انصاری بھائی کو ملتی اور انصاری کی میراث مہاجر کو ملتی۔ سورۂ احزاب کی اس آیت میں اس کے منسوخ ہونے کا حوالہ دیا گیا۔ دیکھیے سورۂ انفال (۷۲ تا ۷۴) یہاں ذکر کرنے کی مناسبت یہ ہے کہ منہ کے ساتھ کہنے سے نہ کوئی ماں بنتی ہے، نہ بیٹا، نہ ہی بھائی، اس لیے اب وراثت کے زیادہ حق دار رشتے کے بھائی ہیں، نہ کہ حلیف ہونے یا عقد مؤاخات کی وجہ سے بننے والے بھائی۔ 6۔ اِلَّا اَنْ تَفْعَلُوْا اِلٰى اَوْلِيٰٓىِٕكُمْ مَّعْرُوْفًا : یعنی اپنے مومن یا مہاجر بھائیوں کے ساتھ میراث کے سوا کوئی نیکی کرو تو درست ہے، مثلاً زندگی میں ان سے احسان والا سلوک کرو، انھیں ہدیہ وغیرہ دو، مرنے کے بعد ان کے حق میں ثلث تک وصیت کر جاؤ، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ 7۔ كَانَ ذٰلِكَ فِي الْكِتٰبِ مَسْطُوْرًا: یعنی لوحِ محفوظ میں اصل حکم یہی ہے، گو لوگوں نے دوسروں کو وارث بنانے کا رواج بنا لیا تھا، مگر اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ یہ منسوخ ہو گا، اس لیے اسے منسوخ کر کے اصل حکم بحال کر دیا ہے۔ یا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم کتاب اللہ، یعنی قرآن مجید میں پہلے لکھا جا چکا ہے، کیونکہ یہ حکم سورۂ انفال (۷۲ تا ۷۴) میں نازل ہوا جو سورۂ احزاب سے پہلے نازل ہوئی۔ (ابن عاشور)