ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِندَ اللَّهِ ۚ فَإِن لَّمْ تَعْلَمُوا آبَاءَهُمْ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَمَوَالِيكُمْ ۚ وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
ان (منہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپوں کے نام سے پکارا کرو۔ اللہ کے ہاں یہی انصاف کی بات ہے۔ اور اگر تمہیں ان کے باپوں (کے نام) کا علم نہ ہو [٤] تو وہ تمہارے دینی بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ اور کوئی بات تم بھول چوک کی بنا پر کہہ دو تو اس میں تم پر کوئی گرفت [٥] نہیں، مگر جو دل کے ارادہ [٦] سے کہو (اس پر ضرورگرفت ہوگی۔) اللہ تعالیٰ یقیناً معاف [٧] کرنے والا ہے، رحم کرنے والا ہے۔
1۔ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ : یعنی جو متبنٰی بنائے جا چکے ہیں اب انھیں ان کے باپوں ہی کی نسبت سے پکارو۔ ان آیات کے نزول کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصل باپ کے سوا کسی دوسرے باپ کی طرف منسوب کرنے سے منع کر دیا اور اس کی سخت وعید بیان فرمائی، چنانچہ زید رضی اللہ عنہ کو بھی زید بن محمد کے بجائے زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں : (( أَنَّ زَيْدَ بْنَ حَارِثَةَ مَوْلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مَا كُنَّا نَدْعُوْهُ إِلاَّ زَيْدَ بْنَ مُحَمَّدٍ حَتّٰی نَزَلَ الْقُرْآنُ : ﴿ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾)) [ بخاري، التفسیر، باب : ﴿ أدعوھم لآبائھم....﴾ : ۴۷۸۲ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ (آزاد کردہ غلام) زید بن حارثہ کو ہم زید بن محمد ہی کہا کرتے تھے، یہاں تک کہ قرآن اترا : ﴿ اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآىِٕهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’انھیں ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو، یہ اللہ کے ہاں زیادہ انصاف کی بات ہے۔‘‘ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَنِ ادَّعٰی إِلٰی غَيْرِ أَبِيْهِ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيْهِ فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ )) [ بخاري، الفرائض، باب من ادعٰی إلیٰ غیر أبیہ : ۶۷۶۶ ] ’’جس شخص نے اپنے باپ کے غیر کی طرف اپنی نسبت کی اور وہ جانتا ہو کہ وہ اس کا باپ نہیں، تو اس پر جنت حرام ہے۔‘‘ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا تَرْغَبُوْا عَنْ آبَاءِ كُمْ فَمَنْ رَغِبَ عَنْ أَبِيْهِ فَهُوَ كُفْرٌ )) [ بخاري، الفرائض، باب من ادعی إلی غیر أبیہ : ۶۷۶۸] ’’اپنے باپوں سے بے رغبتی مت کرو، کیونکہ جس نے اپنے باپ سے بے رغبتی کی تو یہ کام کفر ہے۔‘‘ واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْفِرٰی أَنْ يَّدَّعِيَ الرَّجُلُ إِلٰی غَيْرِ أَبِيْهِ، أَوْ يُرِيَ عَيْنَهُ مَا لَمْ تَرَ، أَوْ يَقُوْلَ عَلٰی رَسُوْلِ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ مَا لَمْ يَقُلْ )) [بخاري، المناقب، باب : ۳۵۰۹ ] ’’سب سے بڑے بہتانوں میں سے یہ بات ہے کہ آدمی اپنی نسبت اپنے باپ کے غیر کی طرف کرے، یا اپنی آنکھوں کو وہ دکھائے جو انھوں نے نہیں دیکھا (خواب گھڑ کر سنائے) یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ بات کہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمائی۔‘‘ 2۔ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰهِ:’’ اَقْسَطُ ‘‘ اسم تفضیل کا صیغہ ہے۔ یہاں ایک سوال ہے کہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منہ بولا بیٹا بنانے والے کی طرف باپ ہونے کی نسبت کرنا بھی قسط (انصاف) ہے، ہاں، اصل باپ کی طرف نسبت زیادہ انصاف ہے۔ اس کا جواب شعراوی نے یہ دیا ہے کہ زید رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام ہوتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے باپ پر ترجیح دے کر آپ کے پاس رہنا پسند کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بیٹے جیسی سعادت دیکھ کر اسے بیٹا بنا لیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شرف کو ملحوظ رکھتے ہوئے ناراضی کا اظہار نہیں فرمایا۔ ہاں، اصل باپ کی طرف نسبت کو ’’ اَقْسَطُ ‘‘ کہہ کر دوسرے کی طرف نسبت سے منع فرما دیا، کیونکہ حق یہی ہے اور اللہ تعالیٰ حق بات ہی فرماتا ہے۔ 3۔ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُكُمْ فِي الدِّيْنِ وَ مَوَالِيْكُمْ : ’’مَوَالِيْ‘‘ ’’مَوْلٰي‘‘ کی جمع ہے، یہاں اس سے مراد دوست ہیں۔ یعنی اگر ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو وہ دین میں تمھارے بھائی اور دوست ہیں۔ کسی کی طرف نسبت کے بجائے انھیں ’’يَا أَخِيْ، يَا مَوْلَايَ‘‘ (اے میرے بھائی، اے میرے دوست) کہہ کر پکارو۔ 4۔ وَ لَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيْمَا اَخْطَاْتُمْ بِهٖ....: یعنی ممانعت سے پہلے تم منہ بولے بیٹوں کو ان کے پرورش کرنے والوں کا بیٹا کہتے رہے، یا کسی کو علم نہ ہونے کی وجہ سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ دیا، یا بلا ارادہ زبان سے کسی دوسرے کا بیٹا کہہ بیٹھے تو اس میں کوئی گناہ نہیں۔ گناہ تو اس میں ہے کہ ممانعت کے بعد دیدہ و دانستہ کسی کو اس کے باپ کے سوا دوسرے کا بیٹا کہو۔ تمھاری خطا پر گناہ اس لیے نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ سے بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔ اس نے خطا اور نسیان کو معاف فرما دیا ہے۔ واضح رہے کہ بعض لوگ منہ بولے بیٹے بنانے کو ان آیات کے ساتھ منسوخ قرار دیتے ہیں، مگر یہ درست نہیں، کیونکہ منسوخ تو تب ہوتا جب وہ پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا۔ وہ تو اسلام سے پہلے کی ایک رسم تھی جسے اللہ تعالیٰ نے ختم فرمایا، اسے منسوخ نہیں کہا جا سکتا۔