أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوَىٰ نُزُلًا بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کئے ان کی قیام گاہ باغات ہوں گے یہ ان کے اعمال کے صلہ میں ان کی مہمانی ہوگی۔
1۔ اَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمْ جَنّٰتُ الْمَاْوٰى: ’’ الْمَاْوٰى ‘‘ ’’أَوٰي يَأْوِيْ ‘‘ (ض) (جگہ پکڑنا، پناہ لینا، رہنا) سے ظرف یا مصدر میمی ہے، رہنے کی جگہ یا رہائش۔ یعنی جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے صالح عمل کیے ان کے لیے ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں، دنیا کی طرح نہیں جو دارِ زوال ہے اور نہ ہی جہنم کی طرح جو جائے فرار ہے۔ 2۔ نُزُلًۢا بِمَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : ’’ نُزُلًا‘‘ مہمان کی آمد پر اس کی خاطر تواضع کے لیے جو کچھ پیش کیا جائے۔ جب مہمانی کا یہ عالم ہے تو مزید عنایتوں کا کیا حال ہو گا۔ ان کا کچھ اندازہ اس سے پہلی آیت : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ﴾ اور حدیثِ رسول : (( مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ )) [ مسلم : ۲۸۲۴ ] سے ہو سکتا ہے۔ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ وہ کسی کے نیک اعمال کو اس کے لیے جنت کی مہمانی کا سبب بنا دے، ورنہ کسی کا عمل اسے جنت میں داخل نہیں کرے گا، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( سَدِّدُوْا وَقَارِبُوْا وَأَبْشِرُوْا، فَإِنَّهُ لَا يُدْخِلُ أَحَدًا الْجَنَّةَ عَمَلُهُ، قَالُوْا وَلَا أَنْتَ يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ!؟ قَالَ وَلَا أَنَا إِلَّا أَنْ يَّتَغَمَّدَنِيَ اللّٰهُ بِمَغْفِرَةٍ وَ رَحْمَةٍ )) [ بخاري، الرقاق، باب القصد و المداومۃ علی العمل : ۶۴۶۷ ]’’سیدھے رہو، قریب رہو اور خوش خبری سنو، کیونکہ کسی کو بھی اس کا عمل جنت میں داخل نہیں کرے گا۔‘‘ لوگوں نے کہا : ’’یا رسول اللہ! کیا آپ کو بھی نہیں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مجھے بھی نہیں، الا یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے مغفرت اور رحمت کے ساتھ ڈھانپ لے۔‘‘