تَتَجَافَىٰ جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
ان کے پہلو بستروں [١٨] سے الگ رہتے ہیں۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں [١٩] دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔
1۔ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ....: یعنی وہ نماز اور ذکر الٰہی کی خاطر اپنے آرام دہ بستر اور لذیذ نیند چھوڑ دیتے ہیں۔ اس کا اعلیٰ درجہ تہجد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿اِنَّ الْمُتَّقِيْنَ فِيْ جَنّٰتٍ وَّ عُيُوْنٍ (15) اٰخِذِيْنَ مَا اٰتٰىهُمْ رَبُّهُمْ اِنَّهُمْ كَانُوْا قَبْلَ ذٰلِكَ مُحْسِنِيْنَ (16) كَانُوْا قَلِيْلًا مِّنَ الَّيْلِ مَا يَهْجَعُوْنَ (17) وَ بِالْاَسْحَارِ هُمْ يَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ [ الذاریات : ۱۵ تا ۱۸ ] ’’بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انھیں دے گا، یقیناً وہ اس سے پہلے نیکی کرنے والے تھے۔ وہ رات کے بہت تھوڑے حصے میں سوتے تھے۔ اور رات کی آخری گھڑیوں میں وہ بخشش مانگتے تھے۔‘‘ اس کے علاوہ بھی قیام اللیل کی فضیلت میں بہت سی آیات و احادیث آئی ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے کہا ہے: يَبِيْتُ يُجَافِيْ جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْمُشْرِكِيْنَ الْمَضَاجِعُ ’’وہ رات اس حال میں گزارتا ہے کہ اپنا پہلو اپنے بستر سے الگ رکھتا ہے، جب مشرکین کے بستر انھیں نہایت بوجھل کیے ہوتے ہیں۔‘‘ [ بخاري، التھجد، باب فضل من تعار من اللیل فصلّی : ۱۱۵۵ ] مگر یہاں ایک سوال ہے کہ یہ جو فرمایا کہ ہماری آیات پر ایمان صرف وہی لوگ لاتے ہیں جن میں یہ صفات پائی جائیں، تو کیا جو شخص تہجد نہ پڑھے اس کا اللہ تعالیٰ کی آیات پر ایمان نہیں؟ جواب اس کا یہ ہے کہ بے شک ایمان کا اعلیٰ مرتبہ انھی لوگوں کا ہے جو فرائض کے علاوہ نفل قیام اللیل کا اہتمام کرتے ہیں، مگر یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ جو شخص مغرب کے بعد عشاء کے انتظار میں نہیں سوتا بلکہ عشاء جماعت کے ساتھ ادا کرتا ہے، پھر فجر کے وقت آرام دہ بستر اور میٹھی نیند چھوڑ کر جماعت کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے، وہ بھی اس فضیلت سے محروم نہیں رہتا۔ کیونکہ اس کا پہلو بھی نماز کی خاطر بستر سے جدا رہا ہے اور وہ سویا ہے تب بھی اس کے انتظار میں سویا ہے۔ عبدالرحمن بن ابی عمرہ کہتے ہیں کہ عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ مغرب کی نماز کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور اکیلے بیٹھ گئے، میں ان کے پاس جا بیٹھا تو انھوں نے کہا، بھتیجے! میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے تھے : (( مَنْ صَلَّی الْعِشَاءَ فِيْ جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ وَمَنْ صَلَّی الصُّبْحَ فِيْ جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّی اللَّيْلَ كُلَّهُ )) [مسلم، المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشاء و الصبح في جماعۃ : ۶۵۶ ] ’’جو شخص عشاء کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا اور جو شخص صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھے تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔‘‘ انس بن مالک رضی اللہ عنہ زیر تفسیر آیت : ﴿ تَتَجَافٰى جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ ﴾ کے بارے میں فرماتے ہیں : (( نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ هٰذِهِ الصَّلَاةِ الَّتِيْ تُدْعَی الْعَتَمَةَ )) [ ترمذي، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ السجدۃ : ۳۱۹۶، و صححہ الألباني ]’’یہ آیت اس نماز کے بارے میں اتری جسے عتمہ (عشاء) کہا جاتا ہے۔‘‘ اور ابو برزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : (( أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ كَانَ يَكْرَهُ النَّوْمَ قَبْلَ الْعِشَاءِ وَالْحَدِيْثَ بَعْدَهَا )) [ بخاري، مواقیت الصلاۃ، باب ما یکرہ من النوم قبل العشاء : ۵۶۸ ] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے کو اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔‘‘ 2۔ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّ طَمَعًا : یعنی وہ اپنے رب کی گرفت کے خوف اور اس کی رحمت کی امید کے ساتھ اسے پکارتے ہیں۔ انھیں خوف ہے کہ ان کے اعمال رد نہ کر دیے جائیں اور امید بھی کہ وہ قبولیت کا شرف حاصل کر لیں گے۔ (دیکھیے مومنون : ۵۷ تا ۶۱) نہ بے جا امید، جو بے عمل یا بد عمل بنا دیتی ہے اور نہ اتنا خوف جو اللہ کی رحمت سے مایوس کر دے اور آدمی کو کفر تک پہنچا دے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بعض صوفیوں نے جو کہا : ’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں جہنم کو بجھادوں اور جنت کو جلا دوں، تاکہ لوگ اللہ تعالیٰ کی عبادت کسی ڈر یا لالچ سے نہ کریں بلکہ محض اس کی رضا کے لیے کریں۔‘‘ اور بعض نے کہا : ’’میں چاہتا ہوں کہ میرا رب مجھ سے راضی ہو جائے، پھر خواہ مجھے جنت میں بھیج دے خواہ جہنم میں پھینک دے۔‘‘ یہ فضول باتیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کی صفت ہی یہ بیان فرمائی ہے کہ وہ اپنے رب کو خوف اور طمع کے ساتھ پکارتے ہیں، پھر یہ بھی ان لوگوں کی جہالت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو جنت اور جہنم سے الگ کر دیا، حالانکہ جنت اسے ملے گی جس پر وہ راضی ہو گا اور جہنم میں وہ جائے گا جس پر وہ ناراض ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا : (( كَيْفَ تَقُوْلُ فِي الصَّلاَةِ؟ ))’’تم نماز میں کیا کہتے ہو؟‘‘ اس نے کہا : (( أَ تَشَهَّدُ وَ أَقُوْلُ، أَللّٰهُمَّ إِنِّيْ أَسْأَلُكَ الْجَنَّةَ وَ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ النَّارِ، أَمَا إِنِّيْ لَا أُحْسِنُ دَنْدَنَتَكَ وَلَا دَنْدَنَةَ مُعَاذٍ ))’’میں تشہد پڑھتا ہوں اور یہ کہتا ہوں کہ اے اللہ! میں تجھ سے جنت مانگتا ہوں اور آگ سے تیری پناہ مانگتا ہوں، ہاں! میں آپ جیسی اچھی گنگناہٹ نہیں کر سکتا اور نہ معاذ جیسی گنگناہٹ کر سکتا ہوں۔‘‘ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( حَوْلَهَا نُدَنْدِنُ )) [ أبوداؤد، الصلاۃ، باب تخفیف الصلاۃ : ۷۹۲، و صححہ الألباني ] ’’ہم بھی اسی کے گرد گنگنا رہے ہیں۔‘‘ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی ساری تگ و دو جہنم سے بچنے اور جنت کے حصول کے لیے ہے، تو پھر ان سے بڑھ کر اللہ کی رضا چاہنے والا کون ہو گا۔ ہمارے ایک شاعر نے جو کہا ہے: واعظ کمال ترک سے ملتی ہے یاں مراد دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے سوداگری نہیں یہ عبادت خدا کی ہے او بے خبر، جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے تو یہ اسی تصوف سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جس کی تعلیمات بنیادی طور پر اسلام ہی کے خلاف ہیں۔ اسلام نے تو ’’ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ‘‘ کہنے کی تعلیم دی ہے۔ مسلمانوں نے جہاد چھوڑ کر دنیا کفار کے سپرد کر دی اور غلامی پر قانع ہو گئے، پھر عیش و عشرت میں پڑ کر عقبیٰ سے بھی گئے اور کچھ بے چارے راہبوں کی طرح رب کو راضی کرنے کے لیے دنیا کو چھوڑ کر خانقاہوں، جنگلوں اور کٹیاؤں میں ہُو، حق کے ورد کرتے رہے اور کفر کی یلغار اسلام اور مسلمانوں کو محکوم بناتی چلی گئی۔ [ إِنَّا لِلّٰہِ وَ إِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ] 3۔ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ : اس کی تفسیر کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ کی آیت (۳) کی تفسیر۔