إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ۩
ہماری آیات پر تو وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب انھیں ان آیات سے نصیحت کی جاتی ہے۔ تو سجدہ [١٧] میں گر پڑتے ہیں اور اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے ہیں اور تکبر نہیں کرتے۔
اِنَّمَا يُؤْمِنُ بِاٰيٰتِنَا الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِهَا ....: یعنی وہ لوگ جو تکبر کرتے ہوئے ہماری ملاقات ہی کو بھول گئے، وہ ہماری آیات پر کبھی ایمان نہیں لاتے۔ ہماری آیات پر تو صرف وہ لوگ ایمان لاتے ہیں جن کی صفات اپنے رب کی ملاقات کو بھول جانے والوں سے بالکل جدا ہوتی ہیں۔ ان کے دلوں میں ضد، ہٹ دھرمی اور عناد نہیں ہوتا۔ ان کی طبیعت اتنی سلیم ہوتی ہے کہ جب انھیں آیات الٰہی کے ساتھ نصیحت کی جاتی ہے تو وہ فوراً حق قبول کرتے اور اللہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔ ان کے نفس کی کبریائی انھیں حق قبول کرنے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت سے مانع نہیں ہوتی۔ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رکوع اور سجود میں یہ دعا پڑھا کرتے تھے : ((سُبْحَانَكَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَا وَ بِحَمْدِكَ، اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِيْ ))’’پاک ہے تو اے اللہ! اے ہمارے پروردگار! اور تیری حمد کے ساتھ، اے اللہ! مجھے بخش دے۔‘‘ [ بخاري، الأذان، باب الدعاء في الرکوع : ۷۹۴ ]