ثُمَّ سَوَّاهُ وَنَفَخَ فِيهِ مِن رُّوحِهِ ۖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ ۚ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ
پھر اسے (رحم مادر) میں درست [١٠] کیا اور اس میں اپنی (پیدا کی ہوئی) روح پھونکی اور تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔
1۔ ثُمَّ سَوّٰىهُ : ’’سَوّٰي يُسَوِّيْ تَسْوِيَةً‘‘ برابر کرنا، درست کرنا۔ پھر اس انتہائی چھوٹے سے جرثومے کو ماں کے رحم میں پیوست کیا اور علقہ اور مضغہ کی منزلوں سے بڑھاتے ہوئے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا کر، اسے گوشت پوست پہنا کر، ہر عضو کو اس کی بہتر سے بہتر جگہ رکھ کر ہر طرح سے درست اور مکمل کر دیا۔ 2۔ وَ نَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ : ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’اور اس میں اپنی ایک روح پھونکی۔‘‘ مراد اس سے اپنی پیدا کردہ روح ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو ’’ لَمْ يَلِدْ وَ لَمْ يُوْلَدْ ‘‘ ہے، انسان کا شرف بیان کرنے کے لیے اس میں پھونکی جانے والی روح کو اپنی روح قرار دیا۔ کیونکہ ارواح جتنی بھی ہیں سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں، مگر انسان کی خصوصیت کے اظہار کے لیے اس کی روح کی نسبت اپنی طرف فرمائی، جیسا کہ تمام اونٹنیوں کا مالک اللہ ہے مگر صالح علیہ السلام کی اونٹنی کو ’’نَاقَةُ اللّٰهِ‘‘ فرمایا، تمام مساجد اللہ تعالیٰ ہی کی ہیں، مگر کعبہ کو ’’بیت اللہ‘‘ کہا جاتا ہے اور بندے سب کے سب اللہ کے ہیں، مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاص شرف کے اظہار کے لیے فرمایا : ﴿ سُبْحٰنَ الَّذِيْ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ ﴾ [ بني إسرائیل : ۱ ] اور فرمایا : ﴿ وَ اَنَّهٗ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللّٰهِ يَدْعُوْهُ ﴾ [ الجن : ۱۹ ] اور دوسرے مقامات پر انھیں اپنا بندہ قرار دیا۔ مزید دیکھیے سورۂ حجر کی آیت (۲۹) کی تفسیر۔ 3۔ وَ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ : اس سے پہلے انسان کی پیدائش کا ذکر غائب کے صیغے کے ساتھ کیا، روح پھونکنے سے جیتا جاگتا انسان وجود میں آگیا تو اللہ تعالیٰ نے اسے مخاطب کر کے فرمایا کہ جب تم پیدا ہوئے تو کچھ نہ جانتے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمھیں علم حاصل کرنے کے ذرائع عطا فرمائے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَيْـًٔا وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ ﴾ [ النحل : ۷۸ ] ’’اور اللہ نے تمھیں تمھاری ماؤں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم کچھ نہ جانتے تھے اور اس نے تمھارے لیے کان اور آنکھیں اور دل بنا دیے، تاکہ تم شکر کرو۔‘‘ علم حاصل کرنے کے ذرائع میں سب سے پہلے سننے کی نعمت کا ذکر فرمایا، کیونکہ پیدا ہونے کے بعد سب سے پہلے کان ہی اپنا کام شروع کرتے ہیں، اس کے بعد آنکھیں اپنا کام شروع کرتی ہیں، اور اس لیے بھی کانوں کا ذکر پہلے فرمایا کہ کانوں پر کوئی پردہ نہیں، وہ ہر وقت اپنا کام سرانجام دیتے ہیں، حتیٰ کہ سونے کی حالت میں بھی سخت آواز جگانے کا باعث ہوتی ہے، جب کہ آنکھیں بند کر لینے سے یا سوجانے سے دیکھنے کا عمل رک جاتا ہے۔ سوچنے سمجھنے کا عمل ان دونوں کے بعد شروع ہوتا ہے، اس لیے ’’ الْاَفْـِٕدَةَ ‘‘ کا ذکر دونوں کے بعد فرمایا۔ 4۔ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ: یہ سب باتیں ایسی واضح ہیں کہ تم میں سے ہر ایک کے مشاہدہ میں آتی رہتی ہیں، مگر تم بہت کم شکر کرتے ہو۔