أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ ۚ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِن رَّبِّكَ لِتُنذِرَ قَوْمًا مَّا أَتَاهُم مِّن نَّذِيرٍ مِّن قَبْلِكَ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُونَ
کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ اس (نبی) نے اس (قرآن) کو خود ہی گھڑ لیا ہے (بات یوں نہیں) بلکہ یہ آپ کے پروردگار [١۔ الف] کی طرف سے حق ہے۔ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں جن کے پاس آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا نہیں آیا [٢]۔ شاید وہ ہدایت [٣] پاجائیں
1۔ اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰىهُ: ’’ اَمْ ‘‘ سے پہلے عموماً ایسا جملہ موجود یا مقدر ہوتا ہے جو ہمزہ استفہام سے شروع ہوتا ہے۔ یہاں مقدر جملہ ظاہر کریں تو عبارت یہ ہو گی : ’’ أَهُمْ يُؤْمِنُوْنَ بِهِ أَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرَاهُ ‘‘ یعنی ’’کیا یہ لوگ اللہ کی نازل کردہ کتاب پر ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہو کر ایمان لاتے ہیں، یا یہ کہہ کر جھٹلا دیتے ہیں کہ اس پیغمبر نے اسے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے؟‘‘ کئی مفسرین نے اس ’’ اَمْ ‘‘ کو منقطعہ قرار دے کر ’’ بَلْ‘‘ کے معنی میں قرار دیا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہو گا : ’’بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اس نے اسے گھڑ لیا ہے۔‘‘ اس ’’ بَلْ ‘‘ سے پہلے بھی ایک عبارت محذوف ہے کہ یہ لوگ اس پر ایمان لانے کے بجائے یہی کہتے ہیں کہ اس نے اسے اپنے پاس سے گھڑ لیا ہے۔ دیکھیے سورۂ فرقان (۴، ۵) اور مدثر (۱۸ تا ۲۵)۔ 2۔ بَلْ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّكَ: فرمایا، ان کا یہ کہنا درست نہیں، بلکہ یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے اور یہ لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق و امانت کو پوری طرح جاننے کے باوجود صریح غلط اور لغو بات کہہ رہے ہیں۔ 3۔ لِتُنْذِرَ قَوْمًا مَّا اَتٰىهُمْ مِّنْ نَّذِيْرٍ مِّنْ قَبْلِكَ : مراد قوم عرب ہے، جنھیں اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کے ساتھ سب سے پہلے خطاب فرمایا اور ان کے ذریعے سے تمام دنیا تک یہ پیغام پہنچانے کا اہتمام فرمایا۔ اس سے پہلے اگرچہ عرب میں اسماعیل، ہود، صالح اور شعیب علیھم السلام مبعوث ہو چکے تھے، مگر ان کی بعثت کو مدتیں گزر چکی تھیں۔ ان کے بعد تورات و انجیل نازل ہوئیں، مگر عرب میں کوئی نبی مبعوث نہیں ہوا۔ اس لیے اللہ عزوجل نے آخری نبی ان میں مبعوث فرمایا، جیسا کہ ارشاد ہے : ﴿ وَ هٰذَا كِتٰبٌ اَنْزَلْنٰهُ مُبٰرَكٌ فَاتَّبِعُوْهُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ (155) اَنْ تَقُوْلُوْا اِنَّمَا اُنْزِلَ الْكِتٰبُ عَلٰى طَآىِٕفَتَيْنِ مِنْ قَبْلِنَا وَ اِنْ كُنَّا عَنْ دِرَاسَتِهِمْ لَغٰفِلِيْنَ (156) اَوْ تَقُوْلُوْا لَوْ اَنَّا اُنْزِلَ عَلَيْنَا الْكِتٰبُ لَكُنَّا اَهْدٰى مِنْهُمْ فَقَدْ جَآءَكُمْ بَيِّنَةٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِ اللّٰهِ وَ صَدَفَ عَنْهَا سَنَجْزِي الَّذِيْنَ يَصْدِفُوْنَ عَنْ اٰيٰتِنَا سُوْٓءَ الْعَذَابِ بِمَا كَانُوْا يَصْدِفُوْنَ ﴾ [ الأنعام : ۱۵۵ تا ۱۵۷ ] ’’اور یہ عظیم کتاب ہے جسے ہم نے نازل کیا ہے، بڑی برکت والی، پس اس کی پیروی کرو اور بچ جاؤ، تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔ ایسا نہ ہو کہ تم کہو کہ کتاب تو صرف ان دو گروہوں پر اتاری گئی جو ہم سے پہلے تھے اور بے شک ہم ان کے پڑھنے پڑھانے سے یقیناً بے خبر تھے۔ یا یہ کہو کہ اگر ہم پر کتاب اتاری جاتی تو ہم ان سے زیادہ ہدایت والے ہوتے۔ پس بے شک تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے ایک روشن دلیل اور ہدایت اور رحمت آچکی، پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ کی آیات کو جھٹلائے اور ان سے کنارا کرے۔ عنقریب ہم ان لوگوں کو جو ہماری آیات سے کنارا کرتے ہیں، برے عذاب کی جزا دیں گے، اس کے بدلے جو وہ کنارا کرتے تھے۔‘‘ مزید تفصیل مذکورہ بالا آیات کی تفسیر میں ملاحظہ فرمائیں۔ 4۔ اس مقام پر کئی مفسرین نے اسماعیل علیہ السلام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان دو ہزار یا اڑھائی ہزار سال کا عرصہ بیان کیا ہے، مگر اس کا کوئی قابل اعتماد حوالہ نہیں دیا، اس لیے ہمارے پاس اس لمبی مدت کی تعیین کا کوئی ذریعہ نہیں۔ 5۔ لَعَلَّهُمْ يَهْتَدُوْنَ : یہاں ’’لَعَلَّ‘‘ ’’كَيْ‘‘ کے معنی میں ہے ’’تاکہ وہ ہدایت پائیں‘‘ اور اگر ’’ترجی‘‘ کے معنی میں ہو، یعنی ’’امید ہے، یا شاید‘‘ تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتبار سے ہے کہ تاکہ آپ اس قوم کو ڈرائیں، اس امید پر کہ وہ ہدایت پا جائیں گے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کو تو ہر بات کا علم ہے کہ وہ ہدایت پائیں گے یا نہیں، تو اسے ’’شاید‘‘ یا ’’امید ہے‘‘ کہنے کی کیا ضرورت ہے۔