يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمْ وَاخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِي وَالِدٌ عَن وَلَدِهِ وَلَا مَوْلُودٌ هُوَ جَازٍ عَن وَالِدِهِ شَيْئًا ۚ إِنَّ وَعْدَ اللَّهِ حَقٌّ ۖ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا وَلَا يَغُرَّنَّكُم بِاللَّهِ الْغَرُورُ
اے لوگو! اپنے پروردگار سے ڈرتے رہو اور اس دن سے ڈر جاؤ جب نہ تو کوئی باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام [٤٦] آئے گا اور نہ بیٹا باپ کے۔ اللہ کا وعدہ یقیناً سچا ہے لہٰذا یہ دنیا کی زندگی تمہیں دھوکہ [٤٧] میں نہ ڈال دے اور نہ کوئی دھوکے بازتمہیں اللہ کے بارے [٤٨] دھوکہ میں ڈالے
1۔ يٰاَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمْ ....: مختلف طریقوں سے توحید اور آخرت کے دلائل بیان کرنے کے بعد اب تقویٰ کا حکم دیا، جو اللہ تعالیٰ کے احکام پر عمل اور اس کی نافرمانی سے بچنے کا نام ہے اور قیامت کے دن سے ڈرتے رہنے کا حکم دیا، کیونکہ اسی سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے۔ اگر باز پرس کا خوف نہ ہو تو کوئی چیز آدمی کو تقویٰ پر آمادہ نہیں کر سکتی۔ 2۔ وَ اخْشَوْا يَوْمًا لَّا يَجْزِيْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِهٖ : یعنی دنیا میں سب سے قریب باہمی تعلق والدین اور اولاد کا ہے، جب وہ ایک دوسرے کے کام نہ آسکے تو کوئی اور رشتے دار، دوست، لیڈر یا پیر فقیر کیا کام آسکے گا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۸)، عبس(۳۴ تا ۳۷)، اور معارج (۸ تا ۱۴) والد کے کام نہ آسکنے کی مثال نوح علیہ السلام اور ان کا بیٹا ہیں۔ 3۔ وَ لَا مَوْلُوْدٌ هُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِهٖ شَيْـًٔا : ’’ جَازٍ ‘‘ ’’جَزٰي يَجْزِيْ‘‘ سے اسم فاعل ہے۔ اولاد کے کام نہ آسکنے کی مثال ابراہیم علیہ السلام اور ان کا باپ ہیں۔ 4۔ اِنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ : اللہ کے وعدے سے مراد قیامت قائم ہونا ہے، وہ ہر حال میں ہو کر رہے گی۔ 5۔ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی انسانوں کو کئی طرح سے دھوکے میں ڈالتی ہے۔ کوئی سمجھتا ہے کہ زندگی بس دنیا ہی کی زندگی ہے، جینا مرنا سب کچھ یہیں ہے، اس کے بعد کوئی دوسری زندگی نہیں، لہٰذا جو کچھ کرنا ہے یہیں پر کر لو۔ دیکھیے سورۂ انعام (۲۹)، مومنون (۳۷) اور جاثیہ (۲۴) کوئی کہتا ہے کہ دنیوی خوشی یا بدحالی ہی حق و باطل کا اور اللہ تعالیٰ کے راضی یا ناراض ہونے کا معیار ہے، اگر قیامت قائم ہوئی تو وہاں بھی وہی خوش حال ہوں گے جو یہاں خوش حال ہیں۔ دیکھیے سورۂ مریم (۷۷) کوئی آخرت پر ایمان کے باوجود دنیا کی خواہشات کی محبت میں کھو کر اس دن کی یاد ہی بھلا بیٹھتا ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۴) غرض دنیا کی زندگی آدمی کو طرح طرح سے دھوکے میں ڈالتی ہے۔ 6۔ وَ لَا يَغُرَّنَّكُمْ بِاللّٰهِ الْغَرُوْرُ : ’’ الْغَرُوْرُ ‘‘ ’’غین‘‘ کے فتح کے ساتھ صفت مشبہ ’’فَعُوْلٌ‘‘ بمعنی فاعل ہے، دھوکا دینے والا، جیسے : ﴿ اِنَّهٗ كَانَ عَبْدًا شَكُوْرًا ﴾ [ بني إسرائیل : ۳ ] اور ’’غین‘‘ کے ضمہ کے ساتھ مصدر ہے، جیسے : ﴿ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ﴾ [الأنعام : ۱۱۲ ] اور : ﴿ لَا نُرِيْدُ مِنْكُمْ جَزَآءً وَّ لَا شُكُوْرًا ﴾ [ الدھر : ۹ ] دھوکا دینے والے سے مراد شیطان ہے، وہ ابلیس اور اس کی اولاد سے ہو یا انسانوں میں سے۔ لفظ کو عام رکھیں تو آدمی کا نفس بھی اسے دھوکا دیتا ہے اور دنیا بھی دھوکا دیتی ہے، اس لیے کئی مفسرین نے یہاں ’’ الْغَرُوْرُ ‘‘ کی تفسیر ’’دنیا‘‘ فرمائی ہے۔ 7۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں شیطان کا یہ دھوکا کئی طرح سے ہوتا ہے۔ یہ کسی کو دھوکا دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہے ہی نہیں، کسی کو دھوکا دیتا ہے کہ وہ بڑا غفور و رحیم ہے، گناہ کر لو، بعد میں توبہ کر لینا۔ کسی سے کہتا ہے کہ فلاں بزرگ یا پیر کا اس پر بڑا زور ہے، وہ سفارش کر کے تمھیں اس کی پکڑ سے بچا لیں گے۔ غرض وہ مختلف طریقوں سے انسان کو دنیا کی طرف مائل کر کے اللہ تعالیٰ سے غافل کر دیتا ہے۔