وَإِذَا غَشِيَهُم مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ دَعَوُا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ فَلَمَّا نَجَّاهُمْ إِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ ۚ وَمَا يَجْحَدُ بِآيَاتِنَا إِلَّا كُلُّ خَتَّارٍ كَفُورٍ
اور جب ان پر سائبانوں جیسی کوئی موج چھا جاتی ہے تو اللہ کی مکمل حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے خالصتاً [٤٣] اسے پکارتے ہیں پھر جب وہ انھیں بچا کر خشکی تک لے آتا ہے تو پھر کچھ ہی لوگ حد اعتدال پر رہتے [٤٤] ہیں اور ہماری نشانیوں کا انکار صرف وہی کرتے ہیں جو غدار [٤٥] اور ناشکرے ہوں۔
1۔ وَ اِذَا غَشِيَهُمْ مَّوْجٌ كَالظُّلَلِ....: پچھلی آیت میں اللہ تعالیٰ کی نعمت کے ساتھ سمندر میں چلنے والی کشتیوں اور جہازوں کو دیکھ کر ایمان والوں کی حالت کا ذکر فرمایا، جو بہت صبر و شکر کرنے والے ہوتے ہیں کہ ان کے لیے ان کشتیوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید کی اور اس کے قادر و مختار ہونے کی بہت سی نشانیاں ہیں۔ اب بتایا کہ مشرکوں کی حالت اس کے برعکس ہوتی ہے، چنانچہ جب سمندر میں طوفان آتا ہے اور یک لخت پانی کی موجیں سائبانوں کی طرح انھیں ڈھانپ لیتی ہیں اور وہ سمجھ لیتے ہیں کہ معاملہ ختم ہے تو تمام خداؤں، حاجت رواؤں اور مشکل کشاؤں کو چھوڑ کر اپنے دین یعنی عبادت کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے اس اکیلے کو پکارتے ہیں۔ 2۔ فَلَمَّا نَجّٰىهُمْ اِلَى الْبَرِّ فَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدٌ ....: ’’ خَتَّارٍ ‘‘ ’’خَتْرٌ‘‘ میں سے ہے، جو بدترین عہد شکنی اور غداری کو کہتے ہیں۔ ’’مُقْتَصِدٌ ‘‘ کا لفظی معنی سیدھی راہ پر چلنے والا بھی ہے اور میانہ روی اختیار کرنے والا بھی۔ اس جملے کی تین تفسیریں ہو سکتی ہیں اور تینوں درست ہیں، ایک یہ کہ ’’ مُقْتَصِدٌ ‘‘ کا معنی سیدھی راہ پر چلنے والا ہے، کیونکہ تمام راستوں میں سے درمیانہ راستہ ہی سیدھا اور درست ہوتا ہے۔ ’’ فَمِنْهُمْ ‘‘ میں ’’مِنْ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، یعنی جب اللہ تعالیٰ انھیں سائبانوں جیسی ان موجوں سے بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ہی سیدھی راہ پر رہنے والے ہوتے ہیں، جو اس عہد پر قائم رہتے ہیں جو انھوں نے طوفان کی حالت میں اپنے رب سے کیا تھا، جیسا کہ ابو جہل کے بیٹے عکرمہ رضی اللہ عنہ تھے، ان میں سے اکثر اللہ تعالیٰ کی ان نشانیوں کا صاف انکار کر دیتے ہیں جن کا مشاہدہ انھوں نے سمندر میں کیا تھا اور اس عہد کو توڑ دیتے ہیں جو انھوں نے طوفان کے وقت اپنے رب سے کیا تھا۔ پھر جو دہریے ہیں وہ اپنے بچ جانے کے لیے مادی اسباب بیان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم فلاں وجہ سے بچ گئے اور جو مشرک ہیں وہ اپنے بچ جانے کو کسی نہ کسی داتا یا دستگیر کی کرم نوازی قرار دینے لگتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی آیات اور اس کی نعمتوں کا اس طرح صاف انکار وہی شخص کر سکتا ہے جو بدترین عہد توڑنے والا اور نہایت ناشکرا ہو۔ ’’ خَتَّارٍ ‘‘ اور ’’ كَفُوْرٍ ‘‘ مشرک کی صفات ہیں، جو بالترتیب مومن کی صفات ’’ صَبَّارٍ ‘‘ اور ’’ شَكُوْرٍ ‘‘ کے مقابلہ میں آئی ہیں۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ’’ مُقْتَصِدٌ ‘‘ سے مراد کفر میں میانہ روی اختیار کرنے والے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ انھیں بچا کر خشکی پر لے آتا ہے تو ان میں سے کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کفر میں اتنے شدید نہیں رہتے، بلکہ میانہ روی اختیار کرتے ہیں، جبکہ اکثر اپنے رب کی اس نعمت کا صاف انکار کر کے بدترین عہد شکنی اور ناشکری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس صورت میں ’’ مُقْتَصِدٌ ‘‘ سے مراد ’’ مُقْتَصِدٌ فِي الْكُفْرِ‘‘ ہو گا۔ تیسری تفسیر اس کی یہ ہے کہ ’’ اِقْتِصَادٌ ‘‘ سے مراد ایمان و اخلاص اور عمل میں میانہ روی ہے : ’’أَيْ فَمِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ فِي الْإِيْمَانِ وَالْعَمَلِ‘‘ یعنی طوفان سے نجات کے بعد جب کچھ وقت گزرتا ہے تو اخلاص اور ایمان کی وہ کیفیت کسی کی بھی باقی نہیں رہتی جو طوفان کے وقت تھی۔ پھر کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اخلاص و ایمان اور عمل کے اعلیٰ درجے سے میانہ روی پر آجاتے ہیں، البتہ اکثر کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ سارے عہد توڑ کر اللہ تعالیٰ کی نعمت کا صاف انکار کر دیتے ہیں اور پھر اپنے شرک کی طرف پلٹ جاتے ہیں۔ شاہ عبدالقادر لکھتے ہیں : ’’یعنی جو حال خوف کے وقت تھا وہ تو کسی کا نہیں، مگر بالکل بھول بھی نہ جائے، ایسے بھی کم ہیں۔ نہیں تو اکثر قدرت سے منکر ہوتے ہیں، اپنے بچ نکلنے کو تدبیر پر رکھتے ہیں یا کسی ارواح وغیرہ کی مدد پر۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے کلام کا اعجاز ہے کہ آیت کے الفاظ میں تینوں معنوں کی گنجائش ہے اور کچھ بعید نہیں کہ تینوں مراد ہوں۔ مزید دیکھیے سورۂ بنی اسرائیل (۶۷)، عنکبوت (۶۵) اور یونس (۲۱ تا۲۳)۔