ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْحَقُّ وَأَنَّ مَا يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الْبَاطِلُ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيرُ
یہ اس لئے کہ اللہ ہی حق ہے اور اس کے علاوہ جنہیں وہ پکارتے ہیں سب باطل [٤٠] ہے اور اللہ ہی عالی شان اور کبریائی والا [٤١] ہے۔
1۔ ذٰلِكَ بِاَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْحَقُّ : یعنی یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ نے اس لیے بیان فرمایا ہے کہ تم جان لو کہ وہی حق ہے جو حقیقی فاعل و مختار ہے، کیونکہ وہ ازلی و ابدی ہے، ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا، اپنے وجود میں وہ کسی کا محتاج نہیں۔ 2۔ وَ اَنَّ مَا يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهِ الْبَاطِلُ : اور اس کے سوا مشرک جس کی بھی عبادت کرتے ہیں سب باطل ہیں، ان کا کہیں وجود ہی نہیں۔ یہاں نہ کوئی لات ہے، نہ منات، نہ داتا، نہ دستگیر، نہ گنج بخش، نہ غریب نواز۔ سب ان مشرکوں کے خیال اور وہم کی تخلیق ہیں اور انھوں نے اپنے پاس سے فرض کر لیا ہے کہ فلاں صاحب خدائی میں کوئی دخل رکھتے ہیں اور انھیں مشکل کُشائی اور حاجت روائی کے اختیارات حاصل ہیں، حالانکہ فی الواقع ان میں سے کوئی بھی نہ خدائی اختیارات کا مالک ہے، نہ کسی کو پکارنا اور اس سے فریاد کرنا حق ہے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۶۶) اور سورۂ نجم (۱۹ تا۲۳)۔ 3۔ ان آیات میں دہریوں کا بھی رد ہے جو اس کائنات کو ازلی اور ابدی سمجھتے ہیں اور مشرکوں کا بھی جو فانی چیزوں کو معبود بنائے بیٹھے ہیں۔ 4۔ وَ اَنَّ اللّٰهَ هُوَ الْعَلِيُّ الْكَبِيْرُ : یعنی کائنات کی ہر چیز سے اس کی شان بلند ہے اور بڑائی میں بھی وہ کائنات کی ہر چیز سے بڑا ہے۔ ان دونوں صفات کا مجموعہ ’’ ثُمَّ اسْتَوٰي عَلٰي الْعَرْشِ ‘‘ میں پایا جاتا ہے۔ اس میں ایک واضح اشارہ اس بات کی طرف بھی ہے کہ بلندی اور بڑائی جب اللہ ہی کی شان ہے تو اس کے مقابلے میں ساری مخلوق پست، عاجز اور حقیر ہے، جس کے مفہوم کو لفظ ’’عبد‘‘ ادا کرتا ہے، فرمایا : ﴿ اِنْ كُلُّ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ اِلَّا اٰتِي الرَّحْمٰنِ عَبْدًا ﴾ [ مریم : ۹۳ ] ’’آسمانوں اور زمین میں جو کوئی بھی ہے وہ رحمان کے پاس غلام بن کر آنے والا ہے۔‘‘ اس سے بڑا ظلم کیا ہو گا کہ اس علی و کبیر کے اختیارات اس کی پیدا کردہ ہستیوں کے لیے سمجھ لیے جائیں جو اس کے عباد اور اس کے سامنے بالکل پست، عاجز اور حقیر ہیں!؟