وَاقْصِدْ فِي مَشْيِكَ وَاغْضُضْ مِن صَوْتِكَ ۚ إِنَّ أَنكَرَ الْأَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيرِ
اور اپنی چال میں اعتدال ملحوظ رکھو اور اپنی آواز پست [٢٥] کرو۔ بلاشبہ سب آوازوں سے بری آواز گدھے کی آواز ہے۔
1۔ وَ اقْصِدْ فِيْ مَشْيِكَ : اکڑ کر چلنے سے منع کیا تو ممکن تھا کہ اس پر عمل کرتے ہوئے کوئی انتہائی کمزور اور مریل چال اختیار کرتا، اس لیے چال میں میانہ روی کا حکم دیا، جس سے نہ تکبر کا اظہار ہوتا ہو نہ کمزوری کا۔ مزید دیکھیے سورۂ فرقان (۶۳)۔ 2۔ وَ اغْضُضْ مِنْ صَوْتِكَ : ’’ مِنْ ‘‘ تبعیض کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ کیا گیا ہے ’’ اور اپنی آواز کچھ نیچی رکھ۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ بلا ضرورت اونچی آواز سے نہیں بولنا چاہیے، کیونکہ یہ وقار کے خلاف ہے اور چلا کر بولنے سے سننے والے کو تکلیف ہوتی ہے۔ بولتے وقت اپنی آواز کسی قدر پست رکھنی چاہیے، نہ اتنی کہ سننے والے سن یا سمجھ ہی نہ سکیں۔ 3۔ اِنَّ اَنْكَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِيْرِ : یعنی بلا ضرورت اونچی آواز سے بولنے اور چیخنے کی مثال گدھے کی آواز جیسی ہے اور تمام آوازوں سے بری آواز گدھے کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جہنمیوں کے چیخنے چلانے کی آوازوں کو ’’ زَفِيْرٌ ‘‘ اور ’’ شَهِيْقٌ ‘‘ (گدھے کی آواز) کہا ہے۔ (دیکھیے ہود : ۱۰۶ ) کفار جب جہنم میں پھینکے جائیں گے تو اس کی خوف ناک آواز جو انھیں سنائی دے گی، اللہ تعالیٰ نے اسے بھی ’’ شَهِيْقًا ‘‘ فرمایا ہے۔ (دیکھیے ملک : ۷ ) اس سے گدھے کی آواز کا شدید مکروہ ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ رازی نے یہاں ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ ہر جانور جب بولتا ہے تو اس سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ تکان کی وجہ سے بول رہا ہے یا بوجھ سے یا خوف یا مار کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے، صرف گدھا ایسا جانور ہے جو کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں بولتا، وہ نہ بوجھ کی وجہ سے بولتا ہے نہ مارنے سے، حتیٰ کہ اگر اسے جان سے مار دیا جائے تو بھی نہیں بولتا اور بولتا ہے تو بلاضرورت ہی بولتا چلا جاتا ہے۔ اس لیے اس کی آواز سب سے زیادہ بری لگنے کی ایک وجہ اس کی کرختگی اور شدت کے علاوہ یہ بھی ہے۔ (الکبیر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گدھے کے رینکنے کی وجہ اس کا شیطان کو دیکھنا بیان فرمایا ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( إِذَا سَمِعْتُمْ صِيَاحَ الدِّيَكَةِ فَاسْأَلُوا اللّٰهَ مِنْ فَضْلِهِ فَإِنَّهَا رَأَتْ مَلَكًا، وَإِذَا سَمِعْتُمْ نَهِيْقَ الْحِمَارِ فَتَعَوَّذُوْا بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطَانِ فَإِنَّهُ رَأَی شَيْطَانًا )) [ بخاري، بدء الخلق، باب خیر مال المسلم غنم ....: ۳۳۰۳ ] ’’جب تم مرغوں کے چیخنے کی آواز سنو تو اللہ سے اس کے فضل کا سوال کرو، کیونکہ انھوں نے کوئی فرشتہ دیکھا ہے اور جب تم گدھے کے رینکنے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ مانگو، کیونکہ اس نے کوئی شیطان دیکھا ہے۔‘‘ یہ مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ تم گدھے کی مشابہت اختیار مت کرو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَيْسَ لَنَا مَثَلُ السَّوْءِ، الَّذِيْ يَعُوْدُ فِيْ هِبَتِهِ كَالْكَلْبِ يَرْجِعُ فِيْ قَيْئِهِ )) [ بخاري، الھبۃ، باب لا یحل لأحد أن یرجع في ھبتہ و صدقتہ : ۲۶۲۲، عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنھما ]’’بری مثال ہمارے لیے نہیں ہے (ہمیں اس کا مصداق نہیں بننا چاہیے) وہ شخص جو اپنے ہبہ کو واپس لیتا ہے، وہ کتے کی طرح ہے، جو اپنی قے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ 4۔ ’’ الْحَمِيْرِ ‘‘ ’’حِمَارٌ‘‘ کی جمع ہے۔ ابن عاشور لکھتے ہیں: ’’قرآن مجید میں گدھے کے لیے جمع کا لفظ ’’ الْحَمِيْرِ ‘‘ آیا ہے، حالانکہ لفظ ’’صَوْتٌ‘‘ مفرد ہے۔ ’’حِمَارٌ‘‘ کا لفظ نہیں فرمایا، کیونکہ جس جمع پر جنس کا الف لام آجائے وہ مفرد و جمع کے لیے یکساں ہوتا ہے۔ اس لیے کہا جاتاہے کہ جمع پر جنس کا الف لام آجائے تو وہ اس سے جمع ہونے کا مفہوم ختم کر دیتا ہے۔ یہاں ’’حِمَارٌ‘‘ کے بجائے ’’ الْحَمِيْرِ ‘‘ کے لفظ کو اس لیے ترجیح دی گئی ہے، کیونکہ ’’ الْحَمِيْرِ ‘‘ کا لفظ آیات کے فواصل سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے، جیسا کہ اس سے پہلی اور بعد والی آیات کے فواصل کو دیکھنے سے ظاہر ہے، جو ’’ خَبِيْرٌ ، الْاُمُوْرِ ، فَخُوْرٍ ، مُنِيْرٍ ‘‘ اور ’’ السَّعِيْرِ ‘‘ وغیرہ ہیں۔‘‘ (التحریر والتنویر) ہمارے بھائی حافظ عبد اللہ رفیق صاحب (دار العلوم المحمدیہ لاہور) نے اس کی ایک اور دلچسپ توجیہ فرمائی ہے کہ گدھے اکٹھے مل کر رینکنا شروع کر دیں تو ماحول بہت زیادہ خراب ہو جاتا ہے۔ یہاں لقمان علیہ السلام کی وصیتیں ختم ہو گئیں، آگے پھر توحید کے دلائل اور مشرکین کو ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس کے ساتھ سورت کی ابتدا ہوئی تھی۔