يَا بُنَيَّ إِنَّهَا إِن تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ فَتَكُن فِي صَخْرَةٍ أَوْ فِي السَّمَاوَاتِ أَوْ فِي الْأَرْضِ يَأْتِ بِهَا اللَّهُ ۚ إِنَّ اللَّهَ لَطِيفٌ خَبِيرٌ
پیارے بیٹے! اگر (تیرا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو وہ خواہ کسی چٹان میں ہو یا آسمانوں میں ہو یا زمین میں، اللہ اسے [٢٢] نکال لائے گا۔ اللہ یقیناً باریک بین اور باخبر ہے
1۔ يٰبُنَيَّ اِنَّهَا اِنْ تَكُ....: لقمان علیہ السلام کی پہلی وصیت کے بعد دو آیات میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے بارے میں وصیت فرمائی۔ اب دوبارہ لقمان علیہ السلام کی وصیتوں کا بیان شروع ہوتا ہے۔ پہلی وصیت میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کا رد اور اس کی توحید کا بیان تھا، اس وصیت میں اللہ تعالیٰ کے علم اور قدرت کے کمال کا بیان ہے۔ 2۔ اکثر مفسرین کے مطابق ’’ اِنَّهَا ‘‘ میں ضمیر ’’هَا‘‘ نیکی اور بدی کے اس عمل کی طرف جا رہی ہے جس کا ذکر پچھلی آیت ’’بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ ‘‘ میں ہے : ’’ أَيْ إِنَّ الْفِعْلَةَ الْحَسَنَةَ أَوِ السَّيِّئَةَ إِنْ تَكُ مِثْقَالَ حَبَّةٍ ‘‘ یعنی ’’اچھا یا برا عمل اگر رائی کے ایک دانے کے برابر ہو گا ....۔‘‘ ابن عاشور نے فرمایا کہ ’’ تَكُ ‘‘ کا اسم مؤنث مقام کی دلالت کے مطابق مقدر مانا جائے گا : ’’ أَيْ إِنْ تَكُ الْكَائِنَةُ ‘‘ یعنی اگر ہونے والی کوئی بھی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو گی۔ یہ عام ہے، جس میں نیکی اور بدی بھی شامل ہے۔ 3۔ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ: مراد چھوٹی سے چھوٹی چیز ہے، کیونکہ عرب اس کے لیے ’’مِثْقَالَ ذَرَّةٍ‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، یا ’’ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ ‘‘ کا۔ ’’ مِثْقَالَ ‘‘ ’’ثَقُلَ‘‘ میں سے آلہ کا وزن ہے، بروزن ’’مِفْعَالٌ۔‘‘ 4۔ فَتَكُنْ فِيْ صَخْرَةٍ اَوْ فِي السَّمٰوٰتِ اَوْ فِي الْاَرْضِ : یہ بیان کسی بھی ایسی چیز کی مثال کے طور پر ہے جو زیادہ سے زیادہ مخفی ہو اور جس کا حصول زیادہ سے زیادہ مشکل ہو۔ 5۔ يَاْتِ بِهَا اللّٰهُ: اس میں اللہ تعالیٰ کے کمال علم اور قدرت کا بیان ہے کہ کوئی چیز کہیں بھی ہو، کتنی پوشیدہ سے پوشیدہ اور کتنی بعید سے بعید ہو، اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے اور وہ اسے حاضر کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ جب چاہے گا اسے اپنے پاس لے آئے گا۔ اس میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی عمل نیک ہو یا بد، جتنا بھی چھپ کر کیا جائے اور اس کا کرنے والا کہیں بھی چلا جائے، اللہ تعالیٰ اسے اور اس کے کرنے والے کو اپنے پاس لے آئے گا اور اس کی جزا دے گا۔ (دیکھیے سورۂ انبیاء : ۴۷) جب اتنی مخفی اور عام رسائی سے باہر چیزوں کے متعلق اس کے علم و قدرت کا یہ عالم ہے، تو ان چیزوں کے بارے میں اس کے علم اور قدرت کا خود ہی اندازہ لگا لو جو اتنی مشکل اور دشوار نہیں ہیں۔ اس وصیت میں حدیثِ جبریل میں مذکور ’’احسان‘‘ کی تاکید ہے کہ آدمی ہر وقت یہ خیال رکھے کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں میرا مالک مجھے دیکھ رہا ہے اور وہ مجھ پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ اس سے انسان اللہ تعالیٰ کی معصیت سے بچ جاتا ہے۔ 6۔ اِنَّ اللّٰهَ لَطِيْفٌ خَبِيْرٌ : ’’لُطْفٌ‘‘ میں باریک بینی اور نرمی دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں۔ ابن عاشور نے فرمایا : ’’اَللَّطِيْفُ مَنْ يَّعْلَمُ دَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ وَيَسْلُكُ فِيْ إِيْصَالِهَا إِلٰي مَنْ تَصْلُحُ لَهُ مَسْلَكَ الرِّفْقِ‘‘ ’’لطیف وہ ہے جو نہایت باریک اشیاء کو جانتا ہو اور جن کے لائق وہ چیزیں ہیں ان تک انھیں پہنچانے میں نرمی کا طریقہ اختیار کرے۔‘‘ مثلاً اس کے لطیف ہونے کا اظہار اس کیڑے کے وجود سے ہوتا ہے جو کسی بہت بڑی چٹان کے اندر ہے، جس تک پہنچنے کا یا خوراک پہنچانے کا کوئی راستہ نہیں۔ اب یہ اس لطیف و خبیر کا کام ہے کہ اس نے اسے وہاں کس طرح پیدا فرمایا، پھر ہر لمحے اس کی ہر ضرورت اسے پہنچائی، پھر جب چاہے چٹان کو توڑ کر یا توڑے بغیر اور اسے ذرہ بھر خراش پہنچائے بغیر جہاں چاہے لے آئے۔ جو رائی کے دانے کے برابر اشیاء کا اتنا علم اور ان پر اتنی دسترس رکھتا ہے، بڑی اشیاء کے متعلق اس کے علم و قدرت کا کیا حال ہو گا!؟ یہاں تک بنیادی صحیح عقیدے کا بیان مکمل ہو گیا۔