وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا ۖ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ ۚ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور اگر وہ تجھ پر یہ دباؤ ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ بھی علم نہیں [١٩] تو ان کا کہا نہ ماننا۔ البتہ دنیوی معاملات میں ان سے بھلائی کے ساتھ رفاقت کرنا مگر پیروی اس شخص کی راہ کی کرنا جس نے میری طرف رجوع [٢٠] کیا ہو۔ پھر تمہیں میرے پاس [٢١] ہی لوٹ کر آنا ہے تو میں تمہیں بتادوں گا جو کچھ تم کیا کرتے تھے۔
1۔ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ....: والدین کے ساتھ حُسن سلوک کی تاکید کے بعد اس میں سے ایک چیز کا استثنا فرمایا کہ اگر وہ تجھ پر اس بات کا زور دیں کہ تو میرے ساتھ شرک کرے، تو خواہ جتنا زور لگا لیں ان کی بات مت ماننا۔ سورۂ عنکبوت کی آٹھویں آیت میں بھی یہی بات بیان ہوئی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ وہاں ’’ وَ اِنْ جَاهَدٰكَ عَلٰى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ ‘‘ ہے اور یہاں ’’ عَلٰى اَنْ تُشْرِكَ بِيْ ‘‘ ہے۔ ’’ عَلٰى ‘‘ کے لفظ میں ’’لام‘‘ کی بہ نسبت زیادہ قوت پائی جاتی ہے، اس لیے تفسیر میں اس بات کی طرف ’’خواہ جتنا زور لگا لیں‘‘ کے الفاظ کے ساتھ اشارہ کیا گیا ہے۔ سورۂ عنکبوت میں فتنے کا ذکر ہے، جو والدین کی طرف سے منت و سماجت اور نرمی سے بھی ہو سکتا ہے اور سختی سے بھی، بہلانے پھسلانے یا بے رخی کی صورت میں بھی ہو سکتا ہے اور طاقت، قوت اور زبردستی کے ساتھ بھی۔ والدین کی طرف سے شرک پر آمادہ کرنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کے باوجود ان کی اطاعت نہ کرنے کا حکم دیا، خواہ معاملہ تلوار یا بندوق تک پہنچ جائے۔ معمولی کوششیں خودبخود اس کے ضمن میں آگئیں۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کے بعد آدمی کے سب سے بڑے محسنوں کی بات ماننا اللہ تعالیٰ کے حکم کے مقابلے میں جائز نہیں، تو پھر کسی اور کی کیا حیثیت ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے؟ خواہ کوئی رشتہ دار ہو یا دوست، پیر ہو یا فقیر، امام ہو یا حاکم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوْقٍ فِيْ مَعْصِيَةِ الْخَالِقِ )) [ المعجم الکبیر للطبراني:13؍60، ح : ۱۴۷۹۵ ] ’’خالق کی نافرمانی کے معاملہ میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔‘‘ مزید دیکھیے سورۂ عنکبوت (۸) کی تفسیر۔ 2۔ وَ صَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوْفًا: ممکن تھا کہ کوئی شخص اس سے یہ سمجھ لیتا کہ والدین کے مشرک ہونے یا شرک پر آمادہ کرنے کی کوشش کی صورت میں ان سے سرے ہی سے قطع تعلق کر لینا چاہیے۔ اس لیے فرمایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں، ان معاملات میں جو دین کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے، ان کے ساتھ اچھے طریقے کے ساتھ رہو۔ مثلاً ان کے کھانے پینے، پہننے، رہنے اور علاج وغیرہ کی ضروریات کا خیال رکھو، ان کے ساتھ نرمی اور محبت کے ساتھ بات کرو، ان کے غصے اور تلخی کو برداشت کرتے رہو۔ جب مشرک والدین کے متعلق یہ حکم ہے، تو مومن والدین کا حق کس قدر ہو گا ! 3۔ وَ اتَّبِعْ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ : اس جملے میں دوبارہ تاکید فرمائی کہ دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ معروف طریقے سے رہنے کی صورت میں اس بات کا خیال رکھو کہ تم میں مداہنت نہ پیدا ہو جائے کہ دینی معاملات میں بھی تم ان کے پیچھے چل پڑو۔ نہیں، چلنا انھی لوگوں کے راستے پر ہے جن کا رجوع میری طرف ہے اور جو صرف میری ہدایت اور رہنمائی پر چلتے ہیں۔ یہ راستہ صرف ان لوگوں کا ہے جو قرآن و حدیث پر چلتے ہیں، کیونکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ یہی دو چیزیں ہیں۔ کسی ایسے شخص کی رائے یا قیاس پر چلنا، جس پر اللہ کی طرف سے وحی نہیں ہوتی ’’ سَبِيْلَ مَنْ اَنَابَ اِلَيَّ ‘‘ پر چلنا نہیں، کیونکہ ہدایت حاصل کرنے کے لیے اس کی طرف رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف نہیں بلکہ غیر اللہ کی طرف ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اِتَّبِعُوْا مَا اُنْزِلَ اِلَيْكُمْ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِهٖ اَوْلِيَآءَ ﴾ [ الأعراف : ۳ ] ’’اس کے پیچھے چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اس کے سوا اور دوستوں کے پیچھے مت چلو۔‘‘ 4۔ ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَاُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : ’’میں تمھیں بتاؤں گا‘‘ میں ڈانٹنے کا جو زور ہے وہ ’’میں تمھیں جزا دوں گا‘‘ میں نہیں۔