وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ
حالانکہ ہم نے ان لوگوں کو آزمایا تھا جو ان سے پہلے گزر چکے [٢] ہیں۔ اللہ تعالیٰ ضرور یہ معلوم [٣] کرنا چاہتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون
1۔ وَ لَقَدْ فَتَنَّا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ: یعنی یہ کوئی نیا معاملہ نہیں ہے جو تمھارے ساتھ پیش آیا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کی یہ مستقل سنت رہی ہے اور پہلے لوگوں کی بھی آزمائشیں ہوتی رہی ہیں، خباب بن ارت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس شکایت کی، اس وقت آپ کعبہ کے سائے میں ایک چادر کا تکیہ بنائے ہوئے تھے، ہم نے آپ سے کہا: (( أَلاَ تَسْتَنْصِرُ لَنَا؟ أَلاَ تَدْعُوْ لَنَا؟ فَقَالَ قَدْ كَانَ مَنْ قَبْلَكُمْ يُؤْخَذُ الرَّجُلُ فَيُحْفَرُ لَهُ فِي الْأَرْضِ فَيُجْعَلُ فِيْهَا فَيُجَاءُ بِالْمِنْشَارِ فَيُوْضَعُ عَلٰی رَأْسِهِ فَيُجْعَلُ نِصْفَيْنِ وَ يُمْشَطُ بِأَمْشَاطِ الْحَدِيْدِ مَا دُوْنَ لَحْمِهِ وَعَظْمِهِ فَمَا يَصُدُّهُ ذٰلِكَ عَنْ دِيْنِهِ، وَاللّٰهِ! لَيَتِمَّنَّ هٰذَا الْأَمْرُ حَتّٰی يَسِيْرَ الرَّاكِبُ مِنْ صَنْعَاءَ إِلٰی حَضْرَ مَوْتَ لاَ يَخَافُ إِلاَّ اللّٰهَ وَالذِّئْبَ عَلٰی غَنَمِهِ وَ لٰكِنَّكُمْ تَسْتَعْجِلُوْنَ )) [بخاري، الإکراہ، باب من اختار الضرب و القتل و الھوان علی الکفر : ۶۹۴۳ ] ’’کیا آپ ہمارے لیے مدد نہیں مانگتے؟ کیا آپ ہمارے لیے دعا نہیں کرتے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’تم سے پہلے لوگوں میں آدمی کے لیے زمین میں گڑھا کھودا جاتا اور اسے زمین میں گاڑ دیا جاتا، پھر آرا لایا جاتا اور اس کے سر پر رکھا جاتا اور اسے دو حصوں میں چیر دیا جاتا اور لوہے کی کنگھیوں سے اس کا گوشت ہڈیوں سے نوچ دیا جاتا اور یہ چیز اسے اس کے دین سے نہیں روکتی تھی۔ اللہ کی قسم! یہ کام ضرور مکمل ہو کر رہے گا، یہاں تک کہ سوار صنعاء سے حضر موت تک چلے گا اور اسے اللہ کے سوا کسی کا خوف نہیں ہو گا، یا اسے اپنی بکریوں کے متعلق بھیڑیے کا (خوف ہو گا)، لیکن تم بہت جلدی کا مطالبہ کرتے ہو۔‘‘ 2۔ فَلَيَعْلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيْنَ صَدَقُوْا ....: ’’سو اللہ تعالیٰ ہر صورت ان لوگوں کو جان لے گا جنھوں نے سچ کہا‘‘ یہاں ایک مشہور سوال ہے کہ اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ اللہ تعالیٰ ماضی، حال اور مستقبل کی ہر بات کو جانتا ہے، پھر اس کا کیا مطلب کہ وہ سچوں اور جھوٹوں کو جان لے گا۔ مفسر ابن کثیر نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ یہاں علم سے مراد وہ علم ہے جو دیکھنے سے حاصل ہوتا ہے، عام علم تو ان چیزوں کا بھی ہوتا ہے جو وجود میں نہ آئی ہوں، مگر دیکھنے سے حاصل ہونے والا علم (یا یہ علم کہ کوئی چیز وجود میں آچکی ہے) کسی چیز کے وجود میں آنے کے بعد ہی ہوتا ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۴۲) کی تفسیر۔