أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ
کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اگر انہوں نے ’’ہم ایمان لائے‘‘ کہہ دیا ہے تو انھیں چھوڑ دیا جائے گا اور ان کی آزمائش [١] نہ کی جائے گی۔
اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ يُّتْرَكُوْا اَنْ يَّقُوْلُوْا اٰمَنَّا ....: ہجرت سے پہلے مکہ مکرمہ میں مسلمان بہت سخت حالات سے گزر رہے تھے، کفار نے ان کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ انسانی فطرت کے مطابق مسلمان کبھی کبھار مصیبتوں کی تاب نہ لا کر گھبرا جاتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے انھیں حوصلہ دینے کے لیے فرمایا : ’’کیا لوگوں نے گمان کر رکھا ہے کہ وہ اسی پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہہ دیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہیں کی جائے گی۔‘‘ یہ استفہام انکار کے لیے ہے، یعنی ایسا نہیں ہو سکتا، بلکہ آزمائش ضرور ہو گی، تاکہ سچے کو جھوٹے سے اور مخلص کو منافق سے جدا کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق آزمائش ایمان کے حساب سے ہوتی ہے، جتنا ایمان مضبوط ہو اتنی ہی آزمائش سخت ہوتی ہے۔ سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے پوچھا : ’’یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے سخت آزمائش کن کی ہوتی ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( أَلْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ الصَّالِحُوْنَ، ثُمَّ الْأَمْثَلُ، فَالْأَمْثَلُ مِنَ النَّاسِ ، يُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلٰی حَسَبِ دِيْنِهِ ، فَإِنْ كَانَ فِيْ دِيْنِهِ صَلاَبَةٌ زِيْدَ فِي بَلاَئِهِ، وَ إِنْ كَانَ فِيْ دِيْنِهِ رِقَّةٌ خُفِّفَ عَنْهُ، وَمَا يَزَالُ الْبَلَاءُ بِالْعَبْدِ حَتّٰی يَمْشِيَ عَلٰی ظَهْرِ الْأَرْضِ لَيْسَ عَلَيْهِ خَطِيْئَةٌ )) [مسند أحمد :1؍ 172، ح : ۱۴۸۵۔ ترمذي : ۲۳۹۸، و صححہ الألباني ] ’’(آزمائش میں سب سے سخت) انبیاء ہوتے ہیں، پھر صالحین، پھر لوگوں میں سے جو افضل ہو، پھر جو اس کے بعد افضل ہو، آدمی کی آزمائش اس کے دین کے حساب سے ہوتی ہے، اگر اس کے دین میں مضبوطی ہو تو اس کی آزمائش میں اضافہ کر دیا جاتا ہے اور اگر اس کے دین میں نرمی ہو تو اس سے تخفیف کی جاتی ہے اور آدمی کی آزمائش جاری رہتی ہے، حتیٰ کہ وہ زمین پر اس حال میں چلتا پھرتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ باقی نہیں ہوتا۔‘‘ اس مضمون کی آیات کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران (۱۴۲ اور ۱۷۹)، بقرہ (۲۱۴)، توبہ (۱۶) اور سورۂ محمد(۳۱)۔