وَمَا كُنتَ تَرْجُو أَن يُلْقَىٰ إِلَيْكَ الْكِتَابُ إِلَّا رَحْمَةً مِّن رَّبِّكَ ۖ فَلَا تَكُونَنَّ ظَهِيرًا لِّلْكَافِرِينَ
آپ کو ہرگز یہ توقع نہ تھی کہ یہ کتاب [١١٨] (قرآن) آپ پر نازل کی جائے گی۔ یہ تو صرف اللہ کی مہربانی ہے۔ لہٰذا آپ ہرگز کافروں کے مددگار نہ بنئے۔ [١١٩]
1۔ وَ مَا كُنْتَ تَرْجُوْا اَنْ يُّلْقٰى اِلَيْكَ الْكِتٰبُ ....: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں جن حالات سے گزر رہے تھے اور جس طرح کفار نے آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا جینا دو بھر کر رکھا تھا، ان حالات میں یہ پیش گوئی کہ آپ کا رب آپ کو یہاں سے ہجرت کے بعد اسی عظیم الشان مقام میں لانے والا ہے، بظاہر ایک ناممکن کام کی پیش گوئی تھی۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اطمینان دلانے کے لیے اس احسان کا ذکر فرمایا جو اس سے کہیں بڑا احسان تھا۔ فرمایا، آپ کو تعجب ہوتا ہے اور یہ بات بہت بعید نظر آتی ہے کہ آپ نہایت باعزت طریقے سے اپنے شہر میں واپس آئیں گے تو ذرا اپنی رسالت پر تو غور کریں، کبھی آپ نے سوچا بھی تھا یا دل میں یہ خیال یا آرزو بھی پیدا ہوئی تھی کہ آپ اللہ کے رسول بن جائیں گے، اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نعمت عطا فرمائی اور رسالت کے لیے چن لیا جو آپ کے خیال تک میں نہ تھی، تو وہ ایسی خبر سے آپ کو کیسے محروم رکھے گا جو آپ کی خواہش ہے اور جس کا آپ شوق رکھتے ہیں۔ 2۔ یہ آیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا سچا رسول ہونے کی بھی زبردست دلیل ہے۔ اس میں بتایا ہے کہ رسالت اور نبوت محض اللہ تعالیٰ کا انتخاب ہے، وہ جنھیں چنتا ہے انھیں بھی خبر نہیں ہوتی کہ ہمیں اتنی بڑی نعمت ملے گی۔ یہ نبوت کے جھوٹے دعوے داروں کا طریقہ ہوتا ہے کہ وہ پہلے ہی اپنی نبوت کا اشتہار شروع کر دیتے ہیں۔ اس سورت میں اس سے پہلے موسیٰ علیہ السلام کو نبوت ملنے کا ذکر ہے، وہ معاملہ بھی اچانک ہوا۔ موسیٰ علیہ السلام کو اس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھی جبریل علیہ السلام غار حرا میں اچانک آئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچا رسول ہونے کی دلیل کے طور پر کئی جگہ بیان فرمایا ہے کہ ایک اُمّی شخص، جس کی عمر کے چالیس سال سب کے سامنے گزرے، جو نہ لکھنا جانتا تھا نہ پڑھنا، اگرچہ صدق و امانت اور اخلاق حمیدہ سے پہلے بھی متصف تھا، مگر نہ کسی کے خیال میں یہ بات تھی نہ خود اس کے دل میں یہ امید تک پیدا ہوئی تھی کہ اسے ایسی کتاب عطا کی جائے گی جس کی ایک سورت کی مثل اللہ کے سوا پوری کائنات جمع ہو کر بھی نہیں لا سکے گی۔ چنانچہ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ كَذٰلِكَ اَوْحَيْنَا اِلَيْكَ رُوْحًا مِّنْ اَمْرِنَا مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَ لَا الْاِيْمَانُ وَ لٰكِنْ جَعَلْنٰهُ نُوْرًا نَّهْدِيْ بِهٖ مَنْ نَّشَآءُ مِنْ عِبَادِنَا وَ اِنَّكَ لَتَهْدِيْ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ﴾ [ الشورٰی : ۵۲ ] ’’اور اسی طرح ہم نے تیری طرف اپنے حکم سے ایک روح کی وحی کی، تو نہیں جانتا تھا کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے اور لیکن ہم نے اسے ایک ایسی روشنی بنا دیا ہے جس کے ساتھ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں راہ دکھا تے ہیں اور بلاشبہ تو یقیناً سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔‘‘ ایک جگہ یہ صراحت فرمائی کہ یہ غیب کی خبریں، جو ہم آپ کو وحی کر رہے ہیں، اس سے پہلے نہ آپ جانتے تھے نہ آپ کی قوم، فرمایا : ﴿ تِلْكَ مِنْ اَنْۢبَآءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَا اِلَيْكَ مَا كُنْتَ تَعْلَمُهَا اَنْتَ وَ لَا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا ﴾ [ ھود : ۴۹ ] ’’یہ غیب کی خبروں سے ہے جنھیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں، اس سے پہلے نہ تو انھیں جانتا تھا اور نہ تیری قوم۔‘‘ 3۔ فَلَا تَكُوْنَنَّ ظَهِيْرًا لِّلْكٰفِرِيْنَ : اللہ تعالیٰ نے کتاب و نبوت عطا کرنے کی نعمت یاد دلانے کے بعد پانچ حکم دیے، پہلا یہ کہ آپ کی قوم قریش اور آپ کے بھائی بندوں اور رشتہ داروں میں سے جو لوگ دین کے معاملہ میں آپ کا ساتھ نہیں دے رہے، بلکہ مخالفت پر اتر آئے ہیں، آپ کسی صورت نہ ان کا ساتھ دیں نہ ان کی حمایت کریں۔