إِنَّ الَّذِي فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ لَرَادُّكَ إِلَىٰ مَعَادٍ ۚ قُل رَّبِّي أَعْلَمُ مَن جَاءَ بِالْهُدَىٰ وَمَنْ هُوَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
اے نبی! بلاشبہ جس (اللہ) نے آپ پر قرآن (پر عمل اور اس کی تبلیغ) [١١٥] فرض کیا ہے وہ آپ کو (بہترین) [١١٦] انجام کو پہنچانے والا ہے۔ آپ ان (کافروں) سے کہئے کہ : میرا پروردگار خوب جانتا ہے کہ کون ہدایت [١١٧] لے کر آیا ہے اور کون واضح گمراہی میں پڑا ہے۔
1۔ اِنَّ الَّذِيْ فَرَضَ عَلَيْكَ الْقُرْاٰنَ ....: ’’ مَعَادٍ ‘‘ میں تنوین تعظیم کی ہے، اس لیے ترجمہ عظیم الشان لوٹنے کی جگہ کیا گیا ہے۔ قرآن فرض کرنے سے مراد اس پر عمل اور اسے تمام دنیا کے لوگوں تک پہنچانے اور اس کے لیے جہاد کرنے کا فریضہ عائد کرنا ہے۔ 2۔ لَرَآدُّكَ اِلٰى مَعَادٍ : پہلے فرمایا تھا : ’’ وَ الْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِيْنَ ‘‘ اب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس اچھے انجام کا ذکر فرمایا اور سورت کا اختتام عظیم الشان خوش خبری کے ساتھ فرمایا، یعنی جس اللہ نے آپ پر قرآن پر عمل کا اور اس کی دعوت کا فریضہ عائد کیا ہے وہ آپ کی محنت و مشقت اور ادائیگی فرض کے نتیجہ میں آپ کو ایک عظیم الشان انجام تک پہنچانے والا ہے، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ دنیا میں اس طرح کہ آپ اس شہر مکہ سے ہجرت کریں گے اور دوبارہ پھر اس میں واپس آئیں گے اور اس شاندار طریقے سے آئیں گے کہ پورا جزیرۂ عرب آپ کے زیرِنگین ہو گا۔ جیسا کہ صحیح بخاری (۴۷۷۳) میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ اس ’’ مَعَادٍ ‘‘ سے مراد مکہ مکرمہ ہے۔ چنانچہ ہجرت کے آٹھویں سال اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہو گیا اور آپ فاتحانہ شان سے مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے، اور آخرت میں عظیم الشان مقام محمود پر پہنچانے والا ہے، جس کی وجہ سے پہلے اور پچھلے سب آپ پر رشک کریں گے۔ اسے ’’ مَعَادٍ ‘‘ اس لیے فرمایا کہ قرآن مجید میں آخرت کو سب کے لیے لوٹنے کی جگہ قرار دیا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ وَ اتَّقُوْا يَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِيْهِ اِلَى اللّٰهِ ﴾ [ البقرۃ : ۲۸۱ ] ’’اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾ [ البقرۃ : ۲۸ ] ’’پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ ﴾ [المائدۃ : ۴۸ ] ’’اللہ ہی کی طرف تم سب کا لوٹ کر جانا ہے۔‘‘ مفسرین میں سے بعض نے ’’ مَعَادٍ ‘‘ سے مراد مکہ اور بعض نے جنت لی ہے، دونوں اقوال اپنی اپنی جگہ درست ہیں۔ 3۔ قُلْ رَّبِّيْ اَعْلَمُ مَنْ جَآءَ بِالْهُدٰى ....: یہ پیش گوئی کہ آپ کا رب آپ کو اسی مکہ میں فاتحانہ شان سے واپس لائے گا، کفار کے نزدیک ایسی بات تھی جو کوئی گمراہ شخص ہی کر سکتا ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف سے آنے والی بات کا جواب پہلے ہی بتا دیا کہ آپ ان سے کہہ دیں کہ میرا رب بہتر جانتا ہے کہ ہدایت لے کر کون آیا ہے اور کون ہے جو کھلی گمراہی میں مبتلا ہے اور بہت جلد یہ حقیقت تم پر واضح ہو جائے گی۔