وَهُوَ اللَّهُ لَا إِلَٰهَ إِلَّا هُوَ ۖ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْأُولَىٰ وَالْآخِرَةِ ۖ وَلَهُ الْحُكْمُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ اسی کے لئے حمد ہے [٩٥] اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ حکم اسی کا چلتا ہے اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔
1۔ وَ هُوَ اللّٰهُ لَا اِلٰهَ اِلَّا هُوَ : اور وہ جس نے جو چاہا پیدا کیا اور پیدا کرتا ہے اور جو چاہے اختیا رکرتا ہے، جو سینوں کی چھپائی ہوئی باتوں کو اور علانیہ کیے جانے والے کاموں کو جانتا ہے وہی اللہ ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ کیونکہ یہ صفات کسی اور میں ہیں ہی نہیں، پھر کوئی اس کا شریک کیسے بن گیا؟! 2۔ لَهُ الْحَمْدُ فِي الْاُوْلٰى وَ الْاٰخِرَةِ : دنیا اور آخرت میں تعریف جو بھی ہے اور جس کی بھی ہے سب اس اکیلے کی ہے، کیونکہ جو تعریف ہو گی کسی نہ کسی خوبی پر ہو گی اور خوبی جو بھی ہے اور جس میں ہے سب اس کی عطا کر دہ ہے۔ سو تعریف جس کی بھی کی جائے اصل میں اسی کی ہو گی۔ اس کے علاوہ دنیا اور آخرت میں اس نے جو کچھ کیا یا کر رہا ہے یا کرے گا سب محمود ہی محمود ہے۔ اس کی بات یا اس کا کام ایک بھی ایسا نہیں جس کی مذمت کی جا سکے۔ اس لیے مومن دنیا میں بھی اسی کی حمد کرتے ہیں۔ اور آخرت میں بھی اسی کی حمد کریں گے۔ دیکھیے سورۂ زمر (۷۴، ۷۵)۔ 3۔ وَ لَهُ الْحُكْمُ : حکم کی دو قسمیں ہیں، ایک تکوینی حکم اور ایک تشریعی۔ تکوینی حکم کا مطلب ’’كُنْ‘‘ کہنا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿اِنَّمَا اَمْرُهٗ اِذَا اَرَادَ شَيْـًٔا اَنْ يَّقُوْلَ لَهٗ كُنْ فَيَكُوْنُ ﴾ [ یٰس : ۸۲ ] ’’اس کا حکم تو، جب وہ کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے، اس کے سوا نہیں ہوتا کہ اسے کہتا ہے ’’ہو جا‘‘ تو وہ ہو جاتی ہے۔‘‘ یہ حکم صرف اس کا ہے، کسی اور میں یہ قدرت ہے نہ اختیار، فرمایا : ﴿ وَ اللّٰهُ يَحْكُمُ لَا مُعَقِّبَ لِحُكْمِهٖ وَ هُوَ سَرِيْعُ الْحِسَابِ ﴾ [ الرعد : ۴۱ ] ’’اور اللہ فیصلہ فرماتا ہے، اس کے فیصلے پر کوئی نظر ثانی کرنے والا نہیں اور وہ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘ دوسرا حکم تشریعی ہے، یعنی اس نے اپنے بندوں کو جو کچھ کرنے یا نہ کرنے کا حکم دیا ہے یہ بھی صرف اس کا حق ہے، کسی دوسرے کو یہ حق دینا اسے اللہ کا شریک بنانا ہے، جیسا کہ فرمایا : ﴿ اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۢ بِهِ اللّٰهُ ﴾ [ الشورٰی : ۲۱ ] ’’ یا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنھوں نے ان کے لیے دین کا وہ طریقہ مقرر کیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی۔‘‘ 4۔ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَ : یعنی مرنے کے بعد تم اپنے بنائے ہوئے کسی مشکل کشا، حاجت روا، داتا، دستگیر، گنج بخش یا غریب نواز کی طرف نہیں بلکہ اس اکیلے کی طرف لوٹائے جاؤ گے اور وہی تمھارا حساب کر کے نیک کو نیکی کا اور بد کو بدی کا بدلا دے گا، اس لیے اس کے ساتھ کسی کو شریک بنا کر اپنی جان پر ظلم مت کرو۔