فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْأَنبَاءُ يَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا يَتَسَاءَلُونَ
تو اس دن انھیں (جواب دینے کو) کوئی بات بھی سجھائی نہ دے گی۔ نہ ہی وہ آپس میں ایک دوسرے سے [٩٠] کچھ پوچھ سکیں گے۔
1۔ فَعَمِيَتْ عَلَيْهِمُ الْاَنْۢبَآءُ يَوْمَىِٕذٍ ....: ’’عَمِيَ يَعْمٰي عَمًي‘‘ (ع) کا معنی اندھا ہونا ہے۔ کہنا یہ تھا کہ ’’فَعَمُوْا عَنِ الْأَنْبَاءِ يَوْمَئِذٍ ‘‘ کہ ’’وہ اس دن خبروں سے اندھے ہو جائیں گے۔‘‘ مبالغے کے لیے الٹ فرمایا کہ اس دن ان پر تمام خبریں تاریک ہو جائیں گی، یعنی یہ بات ان کی سمجھ ہی میں نہیں آئے گی کہ وہ اس سوال کا کیا جواب دیں، نہ ہی یہ ہو سکے گا کہ ایک دوسرے سے پوچھ کر اس سوال کا جواب دے دیں۔ اس وقت کی دہشت ہی اتنی زیادہ ہو گی کہ وہ ایک دوسرے سے کوئی بات پوچھ ہی نہیں سکیں گے۔ 2۔ اس سوال سے پہلے قبر میں منکر نکیر کے سوالات کے جواب میں بھی کافر اور منافق یہی کہیں گے: (( هَاهْ هَاهْ لَا أَدْرِيْ )) ’’ہائے ہائے، میں نہیں جانتا۔‘‘ [ دیکھیے أبوداؤد، السنۃ، باب المسألۃ في القبر....: ۴۷۵۳، عن البراء بن عازب رضی اللہ عنہ ، و صححہ الألباني ] یہ بھی خبروں کے تاریک ہو جانے ہی کا نتیجہ ہو گا۔ 3۔ یہاں فرمایا : ﴿ فَهُمْ لَا يَتَسَآءَلُوْنَ﴾ ’’وہ ایک دوسرے سے (بھی) نہیں پوچھیں گے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ اَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ يَّتَسَآءَلُوْنَ ﴾ [ الصافات : ۲۷ ] ’’اور ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔‘‘ اسی طرح یہاں فرمایا : ’’وہ کچھ جواب نہ دیں سکیں گے۔‘‘ دوسری جگہ فرمایا، وہ کہیں گے : ﴿ وَ اللّٰهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِيْنَ ﴾ [ الأنعام : ۲۳ ] ’’اللہ کی قسم! جو ہمارا رب ہے، ہم شریک بنانے والے نہ تھے۔‘‘ اس ظاہری اختلاف کی حقیقت یہ ہے کہ قیامت کا دن بہت لمبا ہے۔ اس میں کفار پر کئی مرحلے آئیں گے، جن میں کبھی وہ خاموش رہیں گے، کبھی جرم سے انکار کریں گے، کبھی اقرار کریں گے اور کہیں گے ہم پر ہماری بدبختی غالب آگئی۔ کبھی ایک دوسرے سے سوال کریں گے اور کبھی ایک دوسرے سے سوال نہیں کر سکیں گے، اس لیے مقامات مختلف ہونے کی وجہ سے ان آیات میں کوئی حقیقی اختلاف نہیں ہے۔ مزید دیکھیے سورۂ انعام (۲۲، ۲۳)۔