وَقِيلَ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ فَدَعَوْهُمْ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَرَأَوُا الْعَذَابَ ۚ لَوْ أَنَّهُمْ كَانُوا يَهْتَدُونَ
اور ان (پیروکاروں) سے کہا جائے گا کہ : اب اپنے شریکوں کو (مدد کے لئے) پکارو۔ چنانچہ وہ پکاریں گے مگر یہ (شریک) انھیں کوئی جواب [٨٨] نہیں دیں گے اور سب کے سب عذاب دیکھ لیں گے۔ کاش! وہ ہدایت پانے والے ہوتے
وَ قِيْلَ ادْعُوْا شُرَكَآءَكُمْ ....: یعنی پہلے ان سے کہا جائے گا کہ میرے وہ شریک کہاں ہیں جو تم گمان کرتے تھے؟ ابھی وہ اس کا کوئی جواب نہیں دے پائے ہوں گے کہ ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو مدد کے لیے بلاؤ۔ وہ انھیں پکاریں گے تو وہ انھیں جواب نہیں دیں گے۔ اس وقت مایوس ہو کر تمنا کریں گے، کاش! وہ دنیا میں ہدایت قبول کرتے ہوتے۔ بعض مفسرین نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ شیاطین اور مشرکین جب اپنے شریکوں کے طور پر اللہ کے نیک بندوں کا نام لیں گے تو ان سے کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو پکارو، وہ کچھ جواب نہ دیں گے، کیونکہ وہ ان کی مشرکانہ حرکتوں سے واقف تھے نہ ہی ان پر خوش تھے۔ عین اس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے جہنم سامنے لا کر کھڑی کر دی جائے گی، تو انھیں یقین ہو جائے گا کہ ہم اس میں گرائے جانے والے ہیں۔ دیکھیے سورۂ کہف (۵۲، ۵۳)۔