وَمَا أُوتِيتُم مِّن شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَزِينَتُهَا ۚ وَمَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ ۚ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
نہیں جو کچھ بھی دیا گیا ہے وہ بس دنیوی زندگی کا سامان اور اس کی زینبت ہے، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر [٨٣] اور پائندہ تر ہے۔ کیا تم سوچتے نہیں؟
1۔ وَ مَا اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا....: یہ کفار مکہ کے شبہے کا تیسرا جواب ہے، کیونکہ ان کے شبہ کا اصل یہ تھا کہ ہم یہ دین اس لیے قبول نہیں کر رہے کہ ہمیں اپنی دنیا کے نقصان کا خطرہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ یہ تمھاری بہت بڑی غلطی ہے، کیونکہ دنیا میں تمھیں جو کچھ بھی دے دیا جائے سب دنیا کی زندگی کا تھوڑے سے وقت کے لیے فائدہ اٹھانے کا سامان ہے، جس نے آخر ختم ہونا ہے اور آخرت میں جو کچھ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے وہ اس سے کہیں بہتر بھی ہے اور باقی رہنے والا بھی ہے اور کوئی بھی عقل مند بہتر اور باقی کو چھوڑ کر کمتر اور فانی کو ترجیح نہیں دیتا، تو کیا تمھیں عقل نہیں کہ فانی کو ترجیح دے کر ہمیشہ کی زندگی برباد کر رہے ہو۔ 2۔ جو کچھ اللہ کے ہاں ہے اسے بہت بہتر اس لیے فرمایا کہ دنیا کا ساز و سامان اس کے مقابلے میں نہ مقدار میں کچھ حیثیت رکھتا ہے نہ خوبی میں۔ مقدار میں اتنا ہو گا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( إِنَّ آخِرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ دُخُوْلاً الْجَنَّةَ ، وَآخِرَ أَهْلِ النَّارِ خُرُوْجًا مِنَ النَّارِ رَجُلٌ يَخْرُجُ حَبْوًا فَيَقُوْلُ لَهُ رَبُّهُ ادْخُلِ الْجَنَّةَ فَيَقُوْلُ رَبِّ! الْجَنَّةُ مَلْأَی فَيَقُوْلُ لَهُ ذٰلِكَ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ فَكُلُّ ذٰلِكَ يُعِيْدُ عَلَيْهِ الْجَنَّةُ مَلأَی فَيَقُوْلُ إِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا عَشْرَ مِرَارٍ )) [ بخاري، التوحید، باب کلام الرب عزوجل یوم القیامۃ....: ۷۵۱۱ ] ’’جنت میں سب سے آخر میں داخل ہونے والا، جو جہنم سے نکلنے والوں میں سب سے آخری ہو گا، گھسٹتا ہوا آگ سے نکلے گا تو اسے اس کا رب فرمائے گا : ’’جنت میں داخل ہو جا۔‘‘ وہ کہے گا : ’’اے میرے رب! جنت بھری ہوئی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اسے تین دفعہ فرمائے گا، ہر بار وہ یہی جواب دے گا کہ جنت بھری ہوئی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ’’تمھیں دنیا سے دس گنا زیادہ (جنت) عطا کی جاتی ہے۔‘‘ مستورد بن شداد رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( وَاللّٰهِ! مَا الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا مِثْلُ مَا يَجْعَلُ أَحَدُكُمْ إِصْبَعَهُ وَ أَشَارَ يَحْيٰی بِالسَّبَّابَةِ هٰذِهِ فِي الْيَمِّ فَلْيَنْظُرْ بِمَ تَرْجِعُ؟ )) [ مسلم، الجنۃ و صفۃ نعیمھا، باب فناء الدنیا و بیان الحشر یوم القیامۃ : ۲۸۵۸ ] ’’اللہ کی قسم! آخرت کے مقابلے میں دنیا اس کے سوا کچھ نہیں جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنی یہ (شہادت کی) انگلی سمندر میں ڈالے، پھر دیکھے وہ کتنا پانی لے کر لوٹتی ہے؟‘‘ اور خوبی میں آخرت اس لیے کہیں بہتر ہے کہ اس کی ہر نعمت کسی بھی قسم کے غم یا فکر سے پاک ہے، جب کہ دنیا کی کوئی نعمت ایسی نہیں اور وہ اتنی بہتر ہے کہ کوئی شخص نہ اس کی خوبی بیان کر سکتا ہے، نہ وہ کسی کے تصور میں آ سکتی ہے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: (( أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِيْنَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ فَاقْرَؤُوْا إِنْ شِئْتُمْ : ﴿ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا اُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اَعْيُنٍ ﴾ )) [ السجدۃ : ۱۷)) [ بخاري، بدء الخلق، باب ما جاء في صفۃ الجنۃ و أنھا مخلوقۃ : ۳۲۴۴ ] ’’میں نے اپنے صالح بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جو نہ کسی آنکھ نے دیکھا، نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی بشر کے دل میں اس کا خیال تک آیا ہے۔‘‘ اگرچاہو تو یہ آیت پڑھ لو : ’’کوئی جان نہیں جانتی کہ اس کے لیے آنکھوں کی ٹھنڈک کا کیا کچھ سامان چھپا کر رکھا گیا ہے۔‘‘