وَإِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ أَعْرَضُوا عَنْهُ وَقَالُوا لَنَا أَعْمَالُنَا وَلَكُمْ أَعْمَالُكُمْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ لَا نَبْتَغِي الْجَاهِلِينَ
اور جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کرتے ہیں [٧٥] اور کہتے ہیں : ’’ہمارے لئے ہمارے اعمال میں اور تمہارے لئے تمہارے۔ تم پر سلام! ہم جاہلوں سے تعلق نہیں رکھنا چاہتے‘‘
1۔ وَ اِذَا سَمِعُوا اللَّغْوَ اَعْرَضُوْا عَنْهُ: یعنی جب کوئی لغو بات سنتے ہیں تو اس سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں، جیسا کہ فرمایا : وَ اِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا كِرَامًا [ الفرقان : ۷۲ ] ’’جب بے ہودہ کام کے پاس سے گزرتے ہیں تو باعزت گزر جاتے ہیں۔‘‘ 2۔ وَ قَالُوْا لَنَا اَعْمَالُنَا وَ لَكُمْ اَعْمَالُكُمْ : یعنی جب کوئی جاہل بے وقوفی کی کوئی حرکت کرے یا نامناسب بات کرے تو جواب میں ایسی بات یا حرکت نہیں کرتے، بلکہ کہتے ہیں، ہمارے لیے ہمارے عمل ہیں اور تمھارے لیے تمھارے عمل، تم جہالت کرو گے ہم صبر ہی کریں گے۔ مزید دیکھیے سورۂ شوریٰ (۱۵) اور سبا (۲۵، ۲۶)۔ 3۔ سَلٰمٌ عَلَيْكُمْ: دوسری جگہ فرمایا : ﴿ وَ اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا ﴾ [ الفرقان : ۶۳ ] ’’اور جب جاہل لوگ ان سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں سلام ہے۔‘‘ جاہلوں کو سلام محبت اور دعا کا سلام نہیں، بلکہ جدائی اور قطع تعلق کا سلام ہے۔ بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ سلام ایمان والوں کے درمیان ایک دوسرے کے لیے دعا ہے اور جاہلوں کا جہل برداشت کرنے کی علامت ہے۔ 4۔ اس سے معلوم ہوا کہ جس جاہل سے توقع نہ ہو کہ سمجھانے سے سمجھے گا تو اس سے کنارا ہی بہتر ہے۔ 5۔ لَا نَبْتَغِي الْجٰهِلِيْنَ : یعنی ہم نہ دوستی اور مجلس کے لیے جاہلوں کو چاہتے ہیں، نہ جہالت میں مقابلے یا گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے لیے انھیں چاہتے ہیں، بلکہ دور ہی سے سلام کہہ کر ان سے کنارا کرتے ہیں۔ یہ بات دل میں کہتے ہیں، کیونکہ اونچی کہنے سے تو خواہ مخواہ جھگڑا ہو سکتا ہے۔